اسلام آباد(خبر نگار)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس میں اپنے خلاف تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ ریفرنس کا واحد مقصد ان کی کردار کشی اور ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریری گزارشات سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں ان کی اہلیہ اور بچوں کی جائیدادوں سے ان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں،جائیدادیں ان کی ملکیت نہ ہی وہ بے نامی دار ہیں، برطانیہ میں ان کی اہلیہ اور بچوں کی جائیدادوں کو وزیر اعظم عمران خان کی طرح آف شور کمپنی کے ذریعے چھپایا بھینہیں گیا بلکہ اہلیہ اور بچوں کے نام پر رجسٹرڈ ہیں اور خریداری معاہدوں میں بھی نام ہلیہ اور بچوں کا ہی ہے ۔تحریری معروضات میں دعویٰ کیا گیا کہ اس طرح کے ریفرنسز کا مقصد دبائو ڈال کر ججزکو جھکانا ہوتا ہے ۔کہا گیا ہے کہ ریفرنس سے متعلق قانون اور حقائق نے کچھ سولات پیدا کئے جن کا جواب آنا ضروری ہے کیونکہ معاملے کا تعلق عدلیہ کی آزادی سے ہے ۔ وہ 48سال کی عمر میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج بنے اور اس سے پیشتر مالی سال کے دوران انہوں 30لاکھ روپیہ فی مہینہ کے حساب سے ٹیکس دیا جو بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ ان کی پورے سال کی آمدن سے زیادہ تھا۔حکومت نے اہل خانہ کی مخبری کے لیے برطانیہ میں نجی کمپنی کی خدمات حاصل کیں۔ وزیر اعظم نے خود اپنی اہلیہ اور بچوں کے اثاثہ ظاہر نہیں کیے ، کئی نمایاں شخصیات نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی جائیداد کو چھپایا، موجودہ وزیراعظم بھی ان میں شامل ہیں۔جواب میں کہا گیا کہ ریفرنس میں ان پر بے نامی دار کا الزام عائد کیا گیا نہ ہی مالی کرپشن کا بلکہ جائیداد ظاہر نہ کرنے کے نام پر کردار کشی کی گئی ۔جواب میں کہا گیاکہ حاضر سروس جج پر الزامات غلط ثابت ہوئے تو یہ توہین عدالت ہوگی اور سپریم کورٹ توہین عدالت میں ایک وزیر اعظم کو ہٹا چکی ہے ۔تحریری معروضات میں کہا گیا کہ ریفرنس دائر کرنے میں صدر مملکت نے آزادانہ ذہن استعمال نہیں کیا بلکہ وزیر اعظم کی ہدایت پر ریفرنس بھیجا ،جس کا اعتراف خود ریفرنس ہی میں کیا گیا ہے ،کابینہ کو نظر انداز کرکے وزیرا عظم کے ذریعے ریفرنس بھیجنا بدنیتی پر مبنی ہے ،جس کا ثبوت یہ ہے کہ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بھری پریس کانفرنس میں ریفرنس کو احتساب کا شکنجہ کہا،سپریم جوڈیشل کونسل نے بھی غیر قانونی طور پر شو کاز نوٹس جاری کیا ،اگر سپریم جوڈیشل کو نسل سے فیصلہ آجائے تو پھر داد رسی کا کوئی فورم نہیں ہوگا۔ایسٹ ریکوری یونٹ غیر قانونی باڈی ہے ، جس کا کسی قانون،وفاقی حکومت کے رولز اورسرکاری گزٹ میں ذکر نہیں ہے ۔