سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں غیر قانونی تعمیرات ختم اور غیر قانونی قبضے واگزار کروانے کا حکم دیتے ہوئے غفلت کے مرتکب افسران سے ریکوری اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے۔ سرکاری املاک پر غیر قانونی قبضے کرنے والے افراد مضبوط مافیاز کی شکل دھار چکے ہیں ان کے اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں اسلام آباد کے ایک کمشنر کو غیر قانونی الاٹمنٹس کی پاداش میں عدالتوں میں پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ وفاقی دارالحکومت کی املاک کی بندر بانٹ میں سیاسی اشرافیہ اور افسر شاہی کے گٹھ جوڑ کاعالم یہ ہے کہ گزشتہ برس سی ڈی اے کے انکروچمنٹ ونگ نے رینجرز کی مدد سے کچھ قبضے واگزار کروائے تو معاملہ قائمہ کمیٹی تک پہنچ گیا اور کمیٹی کی چیئرپرسن نے سی ڈی اے کے اہلکاروں کی تحسین کے بجائے سرزنش کی کہ ہزاروں افراد کو بے روزگارکر دیا گیا اور یہ کہ جب یہ قبضے ہو رہے تھے تو سی ڈی اے کے اہلکار کہاں تھے۔ لینڈ مافیاز کے ساتھ سیاستدانوں کے تعلقات کا انداز ہ عدالت کے ان ریمارکس سے بھی بخوبی ہو جاتا ہے کہ اسلام آباد میں کھوکھے لگوانے کے کاروبار میں ایم این ایز ملوث ہیں۔ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ عدالت حکومت کو اسلام آباد کو 1967ء کے اصل ماسٹر پلان میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس لینے کے احکام جاری کرے تو وفاقی دارالحکومت کا قدرتی حسن اور سرکاری املاک لینڈ مافیاز اور سیاسی اشرافیہ کی دست برد محفوظ بنائی جا سکیں گی۔