اس دنیا کو دارالغرور یعنی دھوکے کی جگہ کہا گیا ہے! تاریخ ِعالم پر، ایک نگاہ بھی اس کی صلابت ثابت کرنے کو کافی ہے۔ یہ دارالغرور ہے تو اس میں دھوکے بازوں کی بھی کمی نہیں۔ ہر شے جیسی کہ دکھائی دے رہی ہے یا دکھائی جا رہی ہے، متقاضی ہے کہ اسے دوبارہ اور گہری نظر سے دیکھا جائے! کہا جاتا ہے کہ حقیقت، کہانیوں سے زیادہ حیران کْن نکلتی ہے! اس مقولے میں، شک نہیں کرنا چاہیے۔ وقتا فوقتا، ایسے ایسے قصے، سامنے آتے ہیں، جو اس کی صداقت ثابت کر دیتے ہیں! امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ، پچھلے دو سال سے تحقیقات کے دائرے میں ہیں۔ الزام یہ ہے کہ روسیوں کا، ہلری کلنٹن کو ہروانے اور ٹرمپ کو جتوانے میں، بڑا کردار رہا۔ سادہ لفظوں میں اگر یہ سچ ہے، تو دنیا کے دو بڑے طاقتور ملکوں پر روسیوں کی منتخب کردہ قیادت براجمان ہے! ٹرمپ کے انتخابی مہم کے اہالی موالی، ایک ایک کر کے اس تفتیش میں دھر لیے جا رہے ہیں۔ دو ایک کو سزا ہو چکی ہے اور بعضوں کے سلطانی گواہ بننے کی شنید ہے۔ اور تو اور، وزیر ِ قانون جیف سیشنز بھی اسی معاملے میں بڑا سنگین اور کھْلا ہوا جھوٹ بول چکے ہیں۔ سیشنز کہتے رہے کہ انتخابی مہم کے دوران ان کی کوئی ملاقات کسی روسی عہدیدار سے نہیں ہوئی۔ لیکن یہ بات، کھْل کر رہی کہ ان کی، کم از کم دو ملاقاتیں، روسی صدر ولادیمر پوتن کے معتمد اور تجربہ کار سیاستدان، سرگی کِسلیاک سے، انہی دنوں میں ہوئی تھیں! وزیر صاحب اگر سچے اور کھرے ہوتے، تو تحقیقات انہی کی زیر ِنگرانی ہوتیں۔ لیکن وہ خود ایسے گھبرائے ہوئے تھے کہ اس سارے قضیے سے اپنے کو دور رکھنے کو، معذرت کرتے ہوے الگ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ظاہر ہے صدر صاحب کے تلووں سے لگی اور سر پہ بجھی! وزیر ِقانون کے، انہوں نے، لتے لے ڈالے۔ اب کوئی دن جاتا ہے کہ ان پر بھی وہی گزر کر رہے گی، جو سابق وزیر ِخارجہ ریکس ٹِلرسن سمیت، ٹرمپ انتظامیہ میں سے اکثر پر گزر چکی ہے۔ خود صدر صاحب کے بارے میں بھی ان کے مخالفین کو یقین ہے کہ وہ جتنے جی چاہے، ہاتھ پائوں مار لیں ع مگر وہ کب تک، اور ان کی رْباعیاں کب تک! ٭٭٭٭٭ مستحسن قدم، غیر مستحسن رد ِعمل تعصب بْری چیز ہے اور اندھا تعصب نہایت بْری! یہ آدمی کی مَت، ایسے مارتا ہے کہ عقل پر بھی پتھر پڑ جاتے ہیں۔ ہجرت کرنے والے بے شمار ملیں گے، لیکن خوشی سے ہجرت کرنے والے کتنے ہوتے ہیں؟ کراچی میں بسنے والے افغانوں اور بنگالیوں کے لیے، شہریت کا اعلان، بعض لوگوں کے جذبات کو، گویا شتابہ لگا گیا! حیرت ہے کہ جب مغربی ممالک میں‘ مہاجروں پر سختی کی جاتی ہے یا انہیں بے دخل کیا جاتا ہے، پس ماندہ ملک، خصوصا, بہت شور مچاتے ہیں۔ مگر جب تارکین ِوطن کا مسئلہ، غیرترقی یافتہ ممالک کو درپیش ہوتا ہے، یہ رسہ تڑانے کی کوشش کرتے ہیں! دلیل یہ لائی جاتی ہے کہ ع تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو سوال یہ ہے کہ کس منہ سے مغربی ممالک کو طعنہ دیا جائے کہ وہ مہاجرین کے ساتھ سنگ دلانہ سلوک کرتے ہیں اور یہ کہ مہاجرین کے ساتھ لطف و کرم اور مہربانی کا برتاو کرو اور انہیں، ملک بدر نہ کرو۔ اسلامی تاریخ میں، ہجرت کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ یہود کے سوا شاید ہی کسی کے یہاں ملیں۔ دور کیوں جائیے، اہل ِشام پر جو قہر، پچھلے سات آٹھ سال سے ٹوٹ رہا ہے اس کا بھی نتیجہ تاریخ کی عظیم ترین ہجرت کی شکل میں نکلا ہے۔ دسیوں لاکھ شامی مہاجرین کو ترکی آج بھی سہارا دئیے ہوئے ہے۔ اسلام کا پیغام ہم اگر بھلائے بیٹھے ہیں تو انسانیت کا تقاضا بھی، کیا اس سے مختلف ہے؟ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہزاروں مائیں، پاپیادہ، اپنے بچوں کے ساتھ، ہزاروں میل کا سفر، طے کر کے، امریکہ کے دروازے پر پہنچیں، پھر ڈھئی دے کر پناہ کی طلبگار ہوئیں۔ جب ان مائوں کو ان کے چھوٹے اور اکثر نوزائیدہ بچوں سے، علیحدہ کیا جا رہا تھا تو دنیا بھر سے نفرین کے کلمے بلند ہوئے تھے۔ اصل میں اکثر لوگوں کے لیے اس دکھ کو سمجھے بغیر اس کی شدت کا اندازہ لگانا آسان نہیں! ہجرت کا کوئی بڑا دکھ، سہا یا دیکھا ہو گا، جو امرتا پریتم نے آسمانی بجلی کو مخاطب کر کے، التجا کی کہ ع کلے مسافر تے کدی نہ ڈگیں، تے نہ ڈگیں پنگھوڑیاں تے! وطن سے محبت، فطری چیز ہے۔ لیکن جب رشتہ زیست کٹنے لگے یا زندگی پہاڑ جیسا بوجھ بن جائے، تو ہجرت کے سوا، چارہ کار ہی کیا؟ سچ کہا شیخ ِشیراز نے۔ سعدیا حب ِوطن، گرچہ، حدیث ست صحیح نتوان مْرد بہ سختی کہ من این جا زادم یعنی، حب الوطنی اپنی جگہ، لیکن یہاں گھْٹ کے مر جانے سے بہتر ہے کہ ہجرت کر لی جائے! خود ہمارے شاعر نے بھی تو کہا ہے۔ ہر مْلک مْلک ِماست، کہ مِلک ِخدای ِماست ٭٭٭٭٭ کربلا کا راستہ امام حسین ؓ اور ان کے والد ِماجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مقام ِعالی، بڑا منفرد ہے! مسلمانوں کے سواد ِاعظم کا اتفاق ہے کہ حضرت علیؓ نے، جب خلافت سنبھالی ہے، تو روئے کائنات پر سب سے افضل انسان وہی تھے! اسی طرح، امام حسین ؓ جب کربلا کو چلے ہیں، تو ساری دنیا پر ان کی فضیلت، ہرچند کہ پہلے بھی ثابت تھی، اس واقعے نے بالکل مسلم کر دی! کربلا، یعنی شہادت کا راستہ، امام نے برضا اختیار کیا! خدا یہ سیدھا راستہ، خود دکھاتا ہے ع رشتہ در گردنم افگندہ دوست خدا رسیدگان، ہر دور میں اسی راستے پر چلے ہیں۔ دنیا داروں کے لیے یہ حیرت کی اور ایک الگ دنیا ہے لیکن اس پر چلنے والے خاصان ِخدا کو، تردد اور کوشش نہیں کرنی پڑتی! یہ لوگ دنیا میں رہتے ہوئے بھی تارک الدنیا رہتے ہیں! ان کا ایک تَرک، دنیا کی اوقات، دو کوڑی سے بھی، کم ثابت کر دیتا ہے! اِس تَرک کو اْس تَرک سے کوئی مناسبت نہیں جو رہبانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ بلکہ اِس تَرک میں، کار ِدنیا، خدا کی دکھائی ہوئی روشنی میں دیکھا جاتا ہے! امام حسین، خاصان ِخدا میں بھی خاص الخاص اور برگْزیدگی میں، اخص ترین ہیں! رسول کے نواسے، اور شیر ِخدا کے فرزند! یہ دْہری پیشوای ہی اس قابل تھی کہ ساری دنیا، ان کے حضور، دوزانو بیٹھی رہتی! امام ِعالی مقام مسلمانوں کو اگر صرف کار ِدین کی طرف بلاتے رہتے تو واقعات شاید کچھ اور ہوتے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو معاملات اور مراحل، اْس دور کے مسلمانوں کو درپیش تھے، امام ِوقت کے سوا، اَور کون کربلا کا سفر اختیار کرتا؟ اور اگر وہ اس سے نہ گزرتے، تو مسلمانوں کا انجام، کیا ہوتا؟ درحقیقت، اس ایک واقعے نے مسلمانوں اور اسلام، دونوں کی لاج رکھ لی! دنیا حیرت کرتی رہے، لیکن خدائی قاعدہ یہی ہے کہ جب بھی موسم آیا تو نخل ِدار پہ میر سرِمنصور ہی کا بار آیا اس دنیا کو دارالغرور یعنی دھوکے کی جگہ کہا گیا ہے! تاریخ ِعالم پر، ایک نگاہ بھی اس کی صلابت ثابت کرنے کو کافی ہے۔ یہ دارالغرور ہے تو اس میں دھوکے بازوں کی بھی کمی نہیں۔ ہر شے جیسی کہ دکھائی دے رہی ہے یا دکھائی جا رہی ہے، متقاضی ہے کہ اسے دوبارہ اور گہری نظر سے دیکھا جائے! کہا جاتا ہے کہ حقیقت، کہانیوں سے زیادہ حیران کْن نکلتی ہے! اس مقولے میں، شک نہیں کرنا چاہیے۔ وقتا فوقتا، ایسے ایسے قصے، سامنے آتے ہیں، جو اس کی صداقت ثابت کر دیتے ہیں! امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ، پچھلے دو سال سے تحقیقات کے دائرے میں ہیں۔ الزام یہ ہے کہ روسیوں کا، ہلری کلنٹن کو ہروانے اور ٹرمپ کو جتوانے میں، بڑا کردار رہا۔ سادہ لفظوں میں اگر یہ سچ ہے، تو دنیا کے دو بڑے طاقتور ملکوں پر روسیوں کی منتخب کردہ قیادت براجمان ہے! ٹرمپ کے انتخابی مہم کے اہالی موالی، ایک ایک کر کے اس تفتیش میں دھر لیے جا رہے ہیں۔ دو ایک کو سزا ہو چکی ہے اور بعضوں کے سلطانی گواہ بننے کی شنید ہے۔ اور تو اور، وزیر ِ قانون جیف سیشنز بھی اسی معاملے میں بڑا سنگین اور کھْلا ہوا جھوٹ بول چکے ہیں۔ سیشنز کہتے رہے کہ انتخابی مہم کے دوران ان کی کوئی ملاقات کسی روسی عہدیدار سے نہیں ہوئی۔ لیکن یہ بات، کھْل کر رہی کہ ان کی، کم از کم دو ملاقاتیں، روسی صدر ولادیمر پوتن کے معتمد اور تجربہ کار سیاستدان، سرگی کِسلیاک سے، انہی دنوں میں ہوئی تھیں! وزیر صاحب اگر سچے اور کھرے ہوتے، تو تحقیقات انہی کی زیر ِنگرانی ہوتیں۔ لیکن وہ خود ایسے گھبرائے ہوئے تھے کہ اس سارے قضیے سے اپنے کو دور رکھنے کو، معذرت کرتے ہوے الگ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ظاہر ہے صدر صاحب کے تلووں سے لگی اور سر پہ بجھی! وزیر ِقانون کے، انہوں نے، لتے لے ڈالے۔ اب کوئی دن جاتا ہے کہ ان پر بھی وہی گزر کر رہے گی، جو سابق وزیر ِخارجہ ریکس ٹِلرسن سمیت، ٹرمپ انتظامیہ میں سے اکثر پر گزر چکی ہے۔ خود صدر صاحب کے بارے میں بھی ان کے مخالفین کو یقین ہے کہ وہ جتنے جی چاہے، ہاتھ پائوں مار لیں ع مگر وہ کب تک، اور ان کی رْباعیاں کب تک! ٭٭٭٭٭ مستحسن قدم، غیر مستحسن رد ِعمل تعصب بْری چیز ہے اور اندھا تعصب نہایت بْری! یہ آدمی کی مَت، ایسے مارتا ہے کہ عقل پر بھی پتھر پڑ جاتے ہیں۔ ہجرت کرنے والے بے شمار ملیں گے، لیکن خوشی سے ہجرت کرنے والے کتنے ہوتے ہیں؟ کراچی میں بسنے والے افغانوں اور بنگالیوں کے لیے، شہریت کا اعلان، بعض لوگوں کے جذبات کو، گویا شتابہ لگا گیا! حیرت ہے کہ جب مغربی ممالک میں‘ مہاجروں پر سختی کی جاتی ہے یا انہیں بے دخل کیا جاتا ہے، پس ماندہ ملک، خصوصا, بہت شور مچاتے ہیں۔ مگر جب تارکین ِوطن کا مسئلہ، غیرترقی یافتہ ممالک کو درپیش ہوتا ہے، یہ رسہ تڑانے کی کوشش کرتے ہیں! دلیل یہ لائی جاتی ہے کہ ع تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو سوال یہ ہے کہ کس منہ سے مغربی ممالک کو طعنہ دیا جائے کہ وہ مہاجرین کے ساتھ سنگ دلانہ سلوک کرتے ہیں اور یہ کہ مہاجرین کے ساتھ لطف و کرم اور مہربانی کا برتاو کرو اور انہیں، ملک بدر نہ کرو۔ اسلامی تاریخ میں، ہجرت کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ یہود کے سوا شاید ہی کسی کے یہاں ملیں۔ دور کیوں جائیے، اہل ِشام پر جو قہر، پچھلے سات آٹھ سال سے ٹوٹ رہا ہے اس کا بھی نتیجہ تاریخ کی عظیم ترین ہجرت کی شکل میں نکلا ہے۔ دسیوں لاکھ شامی مہاجرین کو ترکی آج بھی سہارا دئیے ہوئے ہے۔ اسلام کا پیغام ہم اگر بھلائے بیٹھے ہیں تو انسانیت کا تقاضا بھی، کیا اس سے مختلف ہے؟ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہزاروں مائیں، پاپیادہ، اپنے بچوں کے ساتھ، ہزاروں میل کا سفر، طے کر کے، امریکہ کے دروازے پر پہنچیں، پھر ڈھئی دے کر پناہ کی طلبگار ہوئیں۔ جب ان مائوں کو ان کے چھوٹے اور اکثر نوزائیدہ بچوں سے، علیحدہ کیا جا رہا تھا تو دنیا بھر سے نفرین کے کلمے بلند ہوئے تھے۔ اصل میں اکثر لوگوں کے لیے اس دکھ کو سمجھے بغیر اس کی شدت کا اندازہ لگانا آسان نہیں! ہجرت کا کوئی بڑا دکھ، سہا یا دیکھا ہو گا، جو امرتا پریتم نے آسمانی بجلی کو مخاطب کر کے، التجا کی کہ ع کلے مسافر تے کدی نہ ڈگیں، تے نہ ڈگیں پنگھوڑیاں تے! وطن سے محبت، فطری چیز ہے۔ لیکن جب رشتہ زیست کٹنے لگے یا زندگی پہاڑ جیسا بوجھ بن جائے، تو ہجرت کے سوا، چارہ کار ہی کیا؟ سچ کہا شیخ ِشیراز نے۔ سعدیا حب ِوطن، گرچہ، حدیث ست صحیح نتوان مْرد بہ سختی کہ من این جا زادم یعنی، حب الوطنی اپنی جگہ، لیکن یہاں گھْٹ کے مر جانے سے بہتر ہے کہ ہجرت کر لی جائے! خود ہمارے شاعر نے بھی تو کہا ہے۔ ہر مْلک مْلک ِماست، کہ مِلک ِخدای ِماست ٭٭٭٭٭ کربلا کا راستہ امام حسین ؓ اور ان کے والد ِماجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مقام ِعالی، بڑا منفرد ہے! مسلمانوں کے سواد ِاعظم کا اتفاق ہے کہ حضرت علیؓ نے، جب خلافت سنبھالی ہے، تو روئے کائنات پر سب سے افضل انسان وہی تھے! اسی طرح، امام حسین ؓ جب کربلا کو چلے ہیں، تو ساری دنیا پر ان کی فضیلت، ہرچند کہ پہلے بھی ثابت تھی، اس واقعے نے بالکل مسلم کر دی! کربلا، یعنی شہادت کا راستہ، امام نے برضا اختیار کیا! خدا یہ سیدھا راستہ، خود دکھاتا ہے ع رشتہ در گردنم افگندہ دوست خدا رسیدگان، ہر دور میں اسی راستے پر چلے ہیں۔ دنیا داروں کے لیے یہ حیرت کی اور ایک الگ دنیا ہے لیکن اس پر چلنے والے خاصان ِخدا کو، تردد اور کوشش نہیں کرنی پڑتی! یہ لوگ دنیا میں رہتے ہوئے بھی تارک الدنیا رہتے ہیں! ان کا ایک تَرک، دنیا کی اوقات، دو کوڑی سے بھی، کم ثابت کر دیتا ہے! اِس تَرک کو اْس تَرک سے کوئی مناسبت نہیں جو رہبانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ بلکہ اِس تَرک میں، کار ِدنیا، خدا کی دکھائی ہوئی روشنی میں دیکھا جاتا ہے! امام حسین، خاصان ِخدا میں بھی خاص الخاص اور برگْزیدگی میں، اخص ترین ہیں! رسول کے نواسے، اور شیر ِخدا کے فرزند! یہ دْہری پیشوای ہی اس قابل تھی کہ ساری دنیا، ان کے حضور، دوزانو بیٹھی رہتی! امام ِعالی مقام مسلمانوں کو اگر صرف کار ِدین کی طرف بلاتے رہتے تو واقعات شاید کچھ اور ہوتے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو معاملات اور مراحل، اْس دور کے مسلمانوں کو درپیش تھے، امام ِوقت کے سوا، اَور کون کربلا کا سفر اختیار کرتا؟ اور اگر وہ اس سے نہ گزرتے، تو مسلمانوں کا انجام، کیا ہوتا؟ درحقیقت، اس ایک واقعے نے مسلمانوں اور اسلام، دونوں کی لاج رکھ لی! دنیا حیرت کرتی رہے، لیکن خدائی قاعدہ یہی ہے کہ جب بھی موسم آیا تو نخل ِدار پہ میر سرِمنصور ہی کا بار آیا