ظالم نے جو کہا وہی منقول ہو گیا قانون اس کے پائوں کی بس دھول ہو گیا حاکم نے اہل عدل کو انصاف کیا دیا جس جس نے سچ کہا وہی معزول ہو گیا لگتا ہے حکومت کو اپنے ہی ہاتھ سے سرزد ہونے والا کوئی اچھا کام بھی پسند نہیں آتا۔ ان سے کوئی ایماندار اور مخلص شخص کہیں پوسٹ ہو جائے اور وہ دیانتداری اور دلجمعی سے کام کرنے لگے تو حکومت کو فوراً اطلاع ہو جاتی ہے کہ وہ آپ کی نیک نامی پر داغ لگا رہا ہے چنانچہ اسے بیک جنبش قلم فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال انتہائی محب وطن راست ذہن اور نیک دل افسر رائے منظور ناصر کو ٹیکسٹ بک بورڈ سے فارغ کر کے سزا کے طور پر بکار خاص میں بھیج دیا گیا ہے۔ جرم اس کا کیا ہے کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں‘ اس پر آپ سعدیہ قریشی کا مفصل کالم پڑھ سکتے ہیں۔ رائے منظور ناصر کو ہٹانا کوئی معمولی اور عام واقعہ ہرگز نہیں۔ پوری قوم کو سوچ میں مبتلا کر دینے والا ہے کہ ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا جائے کسی صاحب ایمان کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اور جو ہمارے بچوں کے معصوم ذہنوں میں زہر بھر دینا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ فوراً نہیں ہو رہا اس سے پہلے بھی اس شعبے میں این جی اوز اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ پچھلے دور میں ایک این جی او نے تو ٹیکسٹ بک بورڈ میں اپنی چھائونی ڈال لی تھی یعنی باقاعدہ اپنا دفتر قائم کر لیا تھا اور وہ ہمارے لوگوں کو اپنی مرضی سے چلا رہے تھے۔ کتنے ہی پبلشرز کو فارغ کر واکے اپنے پسندیدہ لوگوں کو آگے لے آئی اور اپنی مرضی سے سلیبس میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ اس کے خلاف اردو بازار کے صدر خالد پرویز نے باقاعدہ تحریک چلائی تھی اس وقت مصلحت کوشی سے بلند ہو کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ مجھے آفتاب اقبال بھی اچھا لگا کہ اس نے بھی رائے منظور ناصر کے حوالے سے ایک زبردست پروگرام کیا ہے، یہ بیڑا 92چینل کو اٹھانا چاہیے کہ سب سے زیادہ شفاف اور پاکیزہ ذھن والے شرکاء مجھے اس چینل پر نظر آتے ہیں۔ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے: نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا حیرت ہے کہ کسی سلیبس میں ختم نبوت کا موضوع ہی نہیں۔ آقا ﷺ کی روشن اور معطر ہستی کو ہر جگہ آشکار کرنا ضروری ہے۔ کچھ لوگوں کو اسی واسطے سے تکلیف ہوتی ہے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ پہلی دفعہ قرآن پڑھانے اور دعائیں یاد کروانے کا تذکرہ شروع ہوا تو کچھ بدنیت اور بدبودار لوگ سازشیں کرنے لگے کہ یہ دعائیں یاد کرنے پر بچوں کے حافظے پر بوجھ پڑ جائے گا۔ بندہ پوچھے وہ جو بے معنی اور لایعنی انگریزی نظمیں رٹ کر پھرتے ہیں اس پر تو کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا۔ بچوں کے بستے آپ نے نہیں دیکھے؟جو ان کے اپنے وزن سے بھی بھاری ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سے غلطی ہی یہی ہوئی کہ تعلیم سے تربیت نکال دی گئی۔ وہ تربیت جو شیخ سعدی جیسے عظیم لوگوں کی تحریریں پڑھ کر بچے حاصل کرتے تھے۔ اعتماد کے نام پر بچوں کو بدتمیز بنا دیا گیا وہ سب کچھ بھارت کے کارٹونوں سے سیکھتے ہیں۔ دنیا کو دیکھیے کہ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر بم گرنے کے بعد جب انہوں نے سرنڈر کیا تو انہوں نے امریکہ سے معاہدہ کرتے ہوئے صرف ایک شرط رکھی کہ ان کے تعلیمی نظام کو نہ چھیڑا جائے۔ اسی بنیاد پر وہ پھر راکھ سے تعمیر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک ہم کہ جو کوئی مرضی تعلیم کے نام پر ہمارے بچوں کو پڑھاتا پھرے۔ جتنے سکول اتنے تعلیمی کورس۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ ہماری تعلیم کے ساتھ جو مرضی کر لیں بس ہمیں کچھ ڈالر دے دیں ۔ تعلیم ہماری ترجیحات میں ہے ہی نہیں۔ زبیدہ جلال اور قاضی جاوید جیسے لوگوں کو پرویز مشرف نے کھل کھیلنے کا موقع دیا تھا اب بھی ویسے ہی لوگ براجمان ہیں۔ اب اس وقت جب اللہ کے فضل سے ہم کورونا کے ماحول سے تقریبا نکل چکے ہیں اور زندگی بحال ہو چکی ہے تو حکومت کو سخت تشویش ہے کہ سکول اور کالج کھولنا پڑیں گے اب وہ کچھ اور طرح کے روڑے اٹکا رہے ہیں ۔ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اب انہوں نے تمام اساتذہ پر کورونا ٹیسٹ واجب نہیں فرض کر دیا ہے۔ خدا کے بندو ہوش کے ناخن لو لاکھوں اساتذہ کیسے 15روز میں یہ ٹیسٹ کروائیں گے۔ پھر اساتذہ ہی اچھوت کیوں؟ سکولوں میں آنے والے تمام بچے کیوں ٹیسٹ نہیں کروائیں گے۔ سکولوں کا باقی عملہ کیوں نہیں۔ کیا باقی دفتروں میںعملے کے افراد ٹیسٹ کروا کر آئے ہیں۔ وہ جو صحت مند ہیں آخر کس لئے اس امتحان سے گزریں۔ لگتا ہے۔خدا کا نام لیں مراد راس صاحب کیوں تماشا بن رہے ہیں آپ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اس قوم کو مزید مشکلات میں نہ ڈالیں۔ پہلے ہی بے چارے مہنگائی اور دوسرے حالات کے باعث نڈھال ہیں۔ اساتذہ اس معاشرے کا قابل احترام حصہ ہیں وہ اپنے گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ماشاء اللہ رہ رہے ہیں تو سکول میں جا کر انہیں کیا ہو جائے گا۔ اسی طرح بچے پارکوں محلوں اور گلیوں میں کھیل رہے ہیں ۔یہ لوگ نئے نئے ایشو پیدا کرتے رہے ہیں۔یہ سب ہی ایسے ہیں۔ آپ فواد چودھری کو دیکھ لیں وہ اب بیچاری ڈاکٹر یاسمین راشد کے علم کو چیلنج کر رہے ہیں شکر ہے انہوں نے انہیں گائنی کا ڈاکٹر ہی مان لیا۔ پتہ نہیں وہ چاند چڑھانے سے لے کر میڈیکل معاملات تک ہر ٹاپک پر بولتے ہیں۔ منیر نیازی ٹھیک کہتے تھے کہ بعض لوگوں کے بول بول کر سر چھوٹے اور منہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ آخر میں ذکر عروس البلاد کا کہ بارشوں نے اسے ڈبویا ہے تو دل ڈوب رہا ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنی پناہ میں اور امان میں رکھے۔ یہ کراچی والوں پر کڑا وقت ہے حکومت کو چاہیے کہ ساری توجہ اس جانب مبذول کرے۔فوج تو ماشاء اللہ ہمیشہ کی طرح ان کی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ ایمرجنسی نافذ ہے اور اس ضمن میں کوئی فنڈ بھی قائم کرنا چاہیے ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مجھے رہ رہ کر شہزاد احمد کا شعر یاد آ رہا ہے: میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر