رئوف کلاسرا ایک صاحب دل، صاحب کردار صحافی ہیں، مطالعے کے رسیا، کتابوں کے عاشق۔ اس لیے مجھے اچھے لگتے ہیں۔ آج کل وہ معرکۂ ریحام و عمران کی داستان میں اپنے تجربات و مشاہدات رقم کرنے میں مصروف ہیں۔ داستان کی خوبی یہ ہوتی ہے داستان گو لطف سخن اس طرح دراز کرتا ہے کہ پڑھنے والوں کی دلچسپی اور تجسس بڑھتے جاتے ہیں اور داستان شیطان کی آنت کی طرح پیچ در پیچ الجھتی اور کچھ سلجھتی آگے اور آگے کو چلتی چلی جاتی ہے۔ داستان کا دوسرا وصف اس کا مرکزی نکتہ ہوتا ہے جس کے گرد داستان گھومتی اور چکر کاٹتی ہے۔ معرکۂ ریحام و عمران کی داستانی کہانی کا مرکزی نکتہ اس کا ایک اہم کردار شیرو ہے۔ شیرو عمران کا چہیتا، لاڈلا کتا ہے۔ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو غالباً یہ جرمن شیفرڈ کتا سابقہ محبوب جنرل جن سے بعد میں وجوہ در وجوہ کی بنا پر انہوں نے ناتا توڑ لیا مگر یہ کتا۔ ان ہی جنرل صاحب پرویز مشرف کا تحفتاً عطا کردہ تھا، واپس نہ کیا۔ اور اچھا ہی کیا کہ مشرق و مغرب میں محبت سے دیئے ہوئے تحفے تحائف کا واپس کرنا بدتہذیبی سمجھی جاتی ہے۔ رئوف کلاسرا کی داستان مذکورہ میں ریحام و عمران کے تذکرے میں جرمن شیفرڈ شیرو اس طرح نمایاں ہے جیسے عشقیہ فلموں میں ویلن جو بار بار اچھے بھلے رومانی منظروں میں کود پڑتا اور جذبات حسن و عشق میں کھنڈت ڈال دیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود داستان گوئی دلچسپی اور ترجیح اول داستان کے بہ ظاہر مرکزی کرداروں یعنی ریحام و عمران سے بڑھ کر اس پالتو کتے میں نظر آتی ہے جس پر وہ ایسے متوجہ خود اپنی داستان میں ہیں جیسے معرکہ ریحام و عمران کا اصل ذمہ دار یہ بے چارہ کتا ہی ہو۔ گلیوں محلوں میں بھٹکنے والے آوارہ کتے تو واقعی بے چارے ہی ہوتے ہیں جن کی بے چارگی کا نہایت دردناک نقشہ فیض صاحب نے اپنی ایک نظم میں کھینچا ہے۔ مگر بنی گالہ کی عالی شان کوٹھی میں ایک ایسی ہستی کی گود میں بیٹھنے والا کتا جس کا مالک اس دکھیارے ملک میں تبدیلی کا نشان بن چکا ہو، بھلا بے چارہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اور اگر ہوتا تو ہمارے داستان گو اپنی نگاہ پر توجہ بار بار ان ہی پر مرکوز کیوں کرتے؟ داستان گو کے پرلطف بیان میں جس کی آگے جانے کتنی اور قسطیں پڑھنا، ہم پڑھنے والوں کے نصیب میں رقم ہے، ایک آنچ کی کسک پھر بھی باقی رہتی ہے اگر وہ یہ بھی بتا سکتے کہ ان کے داستان کے مرکزی کردار عمران خان کی شخصیت میں وہ کیا کمی ہے یا وہ کون سا خلا ہے جس کو وہ ایک حیوان کی محبت و شیفتگی سے بھرنا یا دور کرنا چاہتے ہیں۔ واللہ ہمیں عمران کے جذبۂ کتا دوستی سے ذرا بھی دشمنی یا بیزاری نہیں۔ آدمی تو پھر آدمی ہے جس پر دل آ جائے۔ اور آج کل تو اپنے اوصاف میں حیوان کے ہاتھوں انسان بھی خجل و شرمندہ ہی ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ بلی میں جو معصومیت اور حیرت ہوتی ہے وہ انسانوں میں بھی کبھی ہوتی تھی جو اب نہیں ہوتی۔ کتے میں وفا اور وفاداری کا جو مادہ ہوتا ہے وہ بھی اب ہم انسانوں میں الا ماشاء اللہ عنقا نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ ایک سیاست دان کو اگر سوچیے تو تلاش اسی وفا اور وفاداری کی ہوتی ہے اور ہمارے خان صاحب کو تو اس کی کتنی اشد ضرورت ہو گی جن کی دو بیگمات کی بے وفائی کا گھائو ان کی روح پر تازہ ہو۔ آدمی اپنی محرومیوں کی تلافی کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طور تو کرتا ہی ہے۔ لیکن بیوی کہ وہ بھی عورت ہی ہوتی ہے، بہ قول ہمارے سلیم احمد پورا آدمی مانگتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنی محبت میں کسی کی شراکت برداشت نہیں کرتی چاہے وہ بھرے بھرے بالوں والا دل فریب جرمن شیفرڈ ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے لیے حیرت کا پہلو یہ ہے کہ معرکۂ جمائما و عمران ہو یا معرکۂ ریحام و عمران، کسی تنازعے میں بھی اس جرمن شیفرڈ کاتذکرہ نہیں آتا۔ داستانِ رئوف کلاسرا کا قابل غور پہلو بھی یہی ہے کہ پہلی بار اس داستان میں وہ کردار یعنی جرمن شیفرڈ کا کردار ابھر کر سامنے آتا اور ہم جیسے محبان عمران خان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ اسی کی دہائی میں جب ہم نے ایک کثیر الاشاعت اخبار میں اپنی کالم نویسی کا آغاز کیا تھا تو پہلا کالم ہی جمخانہ کلب کراچی میں ہونے والے مقابلۂ کتا دوڑ پر رقم کیا تھا۔ اس دوڑ میں خوش نصیبی سے جناب جے اے رحیم کی کتیا اول آئی تھی۔ اس کالم میں ہم نے لکھا تھا انسانوں کی طرح کتے بھی امیر اور غریب ہوتے ہیں۔ امیروں کے بچوں کی طرح ان کے کتے بھی نازو نعم میں پلتے ہیں، بھوکے ہوں تو کھانے کے لیے بکرے کا تازہ گوشت ملتا ہے جو کروڑوں پاکستانیوں کو نصیب نہیں، بیمار پڑ جائیں تو گاڑی میں سوار کرا کے ڈنگر ڈاکٹر کے مطب میں علاج کے لیے پہنچائے جائیں۔ ایسی سہولت بھی کروڑوں ہم وطنوں کی قسمت میں کہاں۔ دیگر عیش و آرام کی تفصیل علیحدہ ہے۔ اس کے برعکس غریبوں کی طرح غریب کتے بھی کوڑے کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر میں اپنی غذا تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ کسی فاسٹ فوڈ کی دکان کے باہر فٹ پاتھ پر میز سجائے مصروف طعام لوگوں کے آگے کسی گداگر بچے کی طرح یہ کتے کھڑی للچائی نظروں سے دیکھیں تو مقدر میں لاتیں، گھرکیاں اور گالیاں ہوتی ہیں۔ تو انسانوں کی طرح کتوں کے بھی نصیب نصیب کی بات ہے۔ کوئی خوش نصیب کتا منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوتا ہے اور تا زندگی عیش و عشرت میں گزارتا ہے اور کوئی سڑک کے کنارے آنکھ کھول کے اپنے گھر اور اپنی حمیت سے محروم بے کسوں کی طرح فٹ پاتھ ہی پر اپنی راتیں بسر کرتا ہے۔ کیا کسی نے فٹ پاتھ سے گزرتے ہوئے نہیں دیکھا ہو گا کہ ادھر گندے سندے ملبوس میں ایک کالا کلوٹا میلا کچیلا بچہ سو رہا ہے اور ذرا فاصلے پہ ایک کتا محو خواب ہے۔ ہمارے تبدیلی کے نشان، ہمارے محترم خان صاحب جو کراچی کی دو نشستوں سے امیدوار ہیں، کبھی جہانگیر ترین کے ذاتی طیارے سے اتر کر لالو کھیت، کورنگی، اورنگی، لیاری یا ایسی ہی کسی پس ماندہ بستی میں رات گئے آئیں اور یہاں کی فٹ پاتھوں اور گلیاروں میں پیدل چلیں تو ایسے مناظر وہ با آسانی دیکھ سکتے ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کے ہماری آنکھیں خشک اور دل درد سے عاری ہو چکے ہیں۔ دیکھیے لطف سخن دراز کیا ہوا، گردش تلخی ایام نے لب و لہجے اور بیانیے کو بھی درد سے آلودہ کر دیا۔ رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی پر معاف۔ قصہ یہ ہے کہ بات سے بات نکلتی ہے اور سو باتوں کی بات یہ ہے کہ جب بات نکلتی ہے تو پھر دُور تلک جاتی ہے۔ ہمارا مقصد عمران خان کی کتا دوستی کے جذبے پر حرف گیری نہ تھا۔ فقط اک ذرا اشارہ قوم کی حرماں نصیبی کی طرف کہ دیکھو جس قوم کی قیادت چاہتے ہو وہ کس پاتال میں گری ہوئی ہے۔ کیسے الم نصیب ہیں ان کے روز و شب اور کیسی امید بھری نگاہوں سے تکتے ہیں تمہاری جانب۔ اگر تم نجات دہندہ ہو تو ایسا ہی نجات دہندہ غریبوں اور دکھیاروں کا ملک میں کوئی اور بھی آیا تھا۔ مگر آج کے بعد اس نے روٹی کپڑا اور مکان کی جگہ بے کسوں اور مجبوروں کو کیا دیا، اس کے بیان کی حاجت نہیں اور آخر کو انجام اس کا کیا ہوا، اسے دہرانے کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ تاریخ کی شہادت یہی ہے کہ جو اس ملک اور عوام سے وفا کا مرتکب نہیں ہوا، اختتام یا انجام بھی اس کا عبرت انگیز ہی ہوا۔ مگر افسوس کہ تم دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے!