قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کو سنگین مسائل کا سامنا تھا ۔مہاجرین کا ایک سیلاب امڈ آیاتھا۔وائسرائے ہندمائونٹ بیٹن کو قائداعظم نے مشترکہ گورنر جنرل تسلیم نہ کیا تو وہ دشمنی پر اتر آیا۔ گورداس پور ضلع بھارت کے حوالہ کر کے بھارت کو ریاست جموں وکشمیر تک زمینی راستہ فراہم کیا گیا۔ اسلحہ، گولہ بارود اور فوج کی تقسیم اور تنظیم نو جیسے مشکل مسائل درپیش تھے۔ افغانستان کے حکمران پختونستان کے نام پر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں عدم استحکام پیدا کررہے تھے۔ان مشکلات کے باوجود قائداعظم کی نظروںسے کشمیراوجھل نہ ہوا۔ وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ اس مسئلہ کا کوئی پرامن حل نکل آئے۔ ممتاز مورخ رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے مابعد قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے مہاراجہ ہری سنگھ کو تین خط لکھے کہ وہ ڈاکٹروں کے مشورے پر سری نگر میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ مہاراجہ بھانپ گیا کہ قائداعظم مسلم رہنماؤں پرپاکستان میں شامل ہونے کے لئے دباؤ ڈالیں گے۔ لہٰذااس نے بہانہ بنایا کہ وہ ان کے شایان شان ضروری انتظامات نہیں کرسکیں گے۔ اکتوبر 1947 کے آغاز میں قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کو مہاراجہ کے اصل ارادوں کا پتہ لگانے اور نیشنل کانفرنس کے راہنماؤں کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کے لیے سری نگر بھیجا گیا ۔کے ایچ خورشید نے گرفتاری سے قبل تقریبا چار ہفتوں تک متعدد سیاسی ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے سری نگر سے ایک ٹیلیگرام کے ذریعے قائداعظم کو آگاہ کیا کہ مہاراجہ پاکستان سے الحاق کے خلاف ہے۔ کشمیر ی مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے تجویزدی کہ: پاکستان کو جنگ کے بار ے میں سوچنا چاہئے۔ پاکستان کو ہر طرح کے حالات کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ کے ایچ خورشید کو جموں و کشمیر پولیس نے گرفتار کرلیا۔ 13 ماہ کی طویل جیل کے بعد وہ قیدیوں کے تبادلے میں کراچی پہنچے، جہاں گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح انتقال کرچکے تھے۔ قائداعظم کی حیات میں گورنر جنرل ہاؤس میںخورشید کی اسامی خالی رہی۔ خورشید کا دل ایسے گورنر جنرل ہاؤس میں نہ لگا جہاں محمد علی جناح کے قدموں کی چاپ سنائی دے اور نہ ان کے سگار کا دھواں اٹھے۔ انہوں نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور لاہور سدھار گئے ۔ چودھری محمد علی جو 1947 میں قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیر خزانہ مقرر ہوئے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''ظہور پاکستان '' میں لکھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے اپنے سیکرٹری خارجہ کو پندرہ اکتوبر کوسری نگر بھیجا تاکہ جموں وکشمیر کی حکومت کے ساتھ متنازعہ مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔لیکن مہاراجہ ہری سنگھ کے وزیر اعظم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔ کشمیر کے مستقبل کو پرامن طور پر طے کرنے کی غالباً یہ آخری سیاسی کوشش تھی جسے ضائع کردیا گیا۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مائونٹ بیٹن، پنڈٹ نہرو اور شیخ عبداللہ کشمیر کے مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے۔ وہ قدم بقدم ایک ایسا فیصلہ کرنے کی جانب گامزن تھے جسے عوامی تائید حاصل نہ تھی ۔ ان تین بڑے سیاستدانوں نے بالاخر تقسیم ہند کے فارمولے، جغرافیائی حقائق اور مقامی آبادی کی خواہشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرکے برصغیر کے امن اور خوشحالی کو یرغمال بنادیا۔ اب حال یہ ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ 27اکتوبر کو اطلاع ملی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیئے ہیں اور بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتررہے ہیں۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈوگلس گریسی کو ٹیلی فون پر حکم دیا کہ وہ فوری طور پرکشمیریوں کی مدد کے لیے فوج روانہ کریں۔گریسی قائداعظم کا حکم مانتے تو اگلے چند گھنٹوں بعد پاکستانی فوج سری نگر راولپنڈی روڑ کے ذریعے بانہال پاس کاٹ چکی ہوتی اور سری نگر کے ہوئی اڈے پر قبضہ کرلیتی۔ یوں بھارتی فورسز کا کم ازکم وادی کشمیر میں جماؤ کا راستہ مسدور ہوجاتا۔ جنرل گریسی نے بہانہ کیا کہ وہ سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سرکلاڈے آکن لیک کی اجازت کے بغیرکشمیر میں فوج نہیں بھیج سکتا کیونکہ وہ بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کے مشترکہ کمانڈر انچیف ہیں۔ٹھیک چھ ماہ بعد اسی جنرل گریسی نے قائداعظم کو سفارش کی کہ وہ کشمیر میں پاکستانی فوج داخل کرنے کا حکم دیں۔اسی ہی کی سفارش پر مئی 1948 پاکستانی فورسز نے آزادجموں وکشمیر کا دفاع کی ذمہ دار ی سنبھالی۔ چودھری غلام عباس کے سوانح نگار بشیر احمد قریشی لکھتے ہیں کہ چودھری غلام عباس جیل سے رہا ہوکر پاکستان پہنچے توقائداعظم سے ملاقات کیلئے کراچی تشریف لے گئے۔ گورنر جنرل ہاؤس پہنچ تو قائد اعظم محمد علی جناح نے گیٹ پر آ کر خود اُن کا استقبال کیا۔ فاروق عبداللہ نے گزشتہ برس 5 اگست کے بعد قائداعظم کو یاد کیا اور کہا کہ وہ سچے اور صاحب بصیرت رہبر تھے جو جانتے تھے کہ ہمارا مستقبل ہندوستان میں محفوظ نہیں۔آج فاروق عبداللہ دکھی ہیں اور قائداعظم کی باتیں انہیں یاد آتی ہیں لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔ فاروق عبداللہ کے رونے دھونے نے مجھے دیا دلایا کہ شیخ عبداللہ نے دہلی کی ا ورنگ زیب روڑ پر قائداعظم کی رہائش پر ہونے والی ایک گفتگو کو دلچسپ پیرائے میں آتش چنار میں قلمبند کیا ہے۔شیخ عبداللہ لکھتے ہیں: میں نے جناح صاحب کو متحدہ قومیت کے حق میں دلائل دیے ۔ وہ بے تابی سے میری باتیں سنتے رہے۔ اُن کے چہرے کے اتار چڑھائو سے لگتا تھا کہ وہ ان باتوں سے خوش نہیں لیکن حق یہ ہے کہ انہوں نے کمالِ صبر سے میری ساری گفتگو سنی اورآخر میں ایک مردِ بزرگ کی طرح فہمائش کے انداز میں کہنے لگے :میں آپ کے باپ کی مانند ہوں اور میں نے سیاست میں اپنے بال سفید کیے ہیں۔ میں نے زندگی بھر ہندؤوں کو اپنانے کی کوشش کی لیکن مجھے ان کااعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وقت آئے گا جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے۔ محقق اور مورخ عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں : دس ستمبر 1948 کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ قائداعظم اب فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔ غالباً اسی دن جناح پر بیہوشی کا غلبہ ہوا۔ اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے۔ ’کشمیر… انھیں فیصلہ کرنیکا حق دو… آئین… میں اسے مکمل کروں گا…بہت جلد … مہاجرین… انھیں ہر ممکن… مدد د… پاکستان…‘(ختم شد)