دامِ وھمرنگ زمین بچھا دیا ہے، اس دشمن نے جو کسی طرح بھی مسلمانوں کے وجود کو برداشت نہیں کرتا۔ دنیا تو بہت رنگین سامان ہے۔ ہر رنگ کا فریب اتنا گہرا کہ فراست پر بھی دھندلاہٹ آ جاتی ہے۔ دانشور کیا کریں، جب دانش پر ہی پردے پڑ جائیں تو یقین کی قوت ہی دانش کو جھلا کرتی ہے اور ایمان کی بساط پر ہی نظریات کی حقیقت درست نظر آتی ہے۔ ایمان ہے کہاں؟ جب دل پر مادیت کی دلکش اور پرفریب سمتیں اس طرح سے چڑھی ہوئی ہیں کہ دل اور دماغ دونوں ہی اسیر عنبر ہیں۔ ہمارے ملک کی نظریاتی بنیاد اول آخر کلمہ حق لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ پر استوار ہے اس کی بقا اور دفاع بھی اسی کلمہ حق سے وابستگی میں مضمر ہے لیکن تقاضا تو یہ ہے کہ اس کلمہ حق کا رسوخ اہل تبلیغ ‘ صاحبان علم و دانش اور اصحابِ بلاغ کے قلوب میں اتنا گہرا ہو کر ان کی زبان ان کے دل کی رفیق ہو اور ان کا دل نامِ محمد ﷺ کی محبت کی آماجگاہ ہو۔ اب ایسا نہیں ہے کہ عالم دین حاکمان دنیا کسی اور خیال میں مستغرق ہیں۔ عالم دین اپنی علمی کائنات میں حقیقی مقصود سے غافل ہیں اور غیر متعلقہ مباحث میں اتنے مشغول ہیں کہ کلمہ حق کے غلبے کی کامیابی ترکیب سے ناواقف ہو چکے ہیں۔ محراب و منبر سے جو ابلاغ قوم کو میسر آتا ہے ان میں فروعی مباحث اتنے زیادہ ہیں کہ اسلام کا روپ اور رنگ گم ہو چکا ہے۔ بہت واضح ہے کہ ملت کو اتنی گہرائی سے شیعہ سنی تقسیم میں اتارا گیا ہے کہ ہر شخص کی دینی پہچان مسلکی زاویوں کی محتاج ہو گئی ہے۔ منظم تبلیغی تنظیمیں اپنے اکابر کی محبت کو محور بنا کر محبت دین کا سبق دینے لگیں تو رسول اعظم سید الکونین ﷺ تک رسائی ایک کاردشوار بن جاتا ہے۔ روز اول ہی سے یہودیوں کی دسیسہ کاریاں اتنی کاری ہیں کہ ان کا ہدف قرآن اور صاحب قرآن پر تنقید کر کے بے یقینی کی ایسی صورت پیدا کرنا ہے جس سے مسلمانوں میں متنازعہ افکار کا ایسا خاموش سلسلہ شروع ہو جائے جو ان کے بنیادی مسلمہ عقائد کو بھی مجروح کرنے میں معاون ثابت ہو۔ فتنہ خلق قرآن سے لے کر توحید و رسالت کے بنیادی عقائد کو متنازعہ بنانے کے تمام اسباب میں بھیس بدلے یہودی ‘نصرانی ‘ منکرین و اہل دانش کا بہت بڑا دخل ہے۔ یہ سلسلہ مکرو سازش آج بھی دیار فرنگ میں اسی کروفر سے علم کی ترویج کے نام پر جاری ہے۔ اس حقیقت سے منہ چرا کر ہم کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیںکہ دیار فرنگ میں ایک طویل عرصے سے بہت منظم اور کامیاب طریقے سے یہودی ‘ نصران اور ہندوئوں کو دین اسلام کے عقائد و اعمال سے واقف کرانے کے ادارے ہر غیر مسلم خطے میں موجود۔ وہاں پر عربی زبان و ادب اور دینی علوم کی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کا اہتمام بلیغ موجود ہے۔ قرآن شریف‘ حدیث شریف اوراسلامی فقیہ کی مضبوط اورمربوط تعلیم کا اہتمام موجود ہے۔ ہنود و یہود کا رویہ معاشرتی‘ ثقافتی اور ملی انداز میں ہردور میں کھل کر سامنے آتا ہے۔ مذہبی تفریق اور عصبیت کی تعلیم کے اثرات بھارت اور اسرائیل کی مسلم دشمن اور مسلم کش واردات میں پوری طرح سے عیاں ہوتا ہے۔ اب ہم کیا کریں؟ بہت ضروری ہے کہ ملت کے بنیادی افکار اور دین کے بنیادی اعتقادات کا تحفظ کیا جائے اور ایسے رجال کار علمی و ثقافتی انداز سے تیار کئے جائیں جو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور جدید معاشرتی تقاضوں کی تقسیم کا اخلاص کے ساتھ کام کریں اور مسلکی رویوں کی جکڑن سے نکل کر ایک درست ترین مرکزی فکر کو قوم و ملت کے اذھان و قلوب سے آشنا کریں۔ اکابر پرستی کی بے جا رسم کو ذرا دیرکے لئے طاق نسیان میں رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ برصغیر میں ایک بڑی چال نصرانی تنظیموں نے حکومت وقت کی پوری سرپرستی میں نصرانیت کے فروغ کے لئے کئی طرح کے طریقے اختیار کئے براہ راست اسلامی تعلیمات کو مشکوک بنانے کے لئے لٹریچر تیار کیا اور پھر پورے اعتماد سے مسلمان علماء سے مناظروں کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ عوام الناس میں ان کی غربت اور جہالت کا سہارا لے کر عیسائیت کی موثر تبلیغ کی۔ ہندوئوں کی کمزور قوموں کا شکار اور بے تربیت روایتی مسلمانوں کو تبدیلی مذہب کے لئے دلکش طریقوں کا سہارا لیا تیسری اہم بات یہ کہ مسلمانوں کے سواد اعظم میں اعتقادی تفریق پیدا کرنے کے لئے اسلامی بنیادی عقائد کو اپنے مذموم ارادوں کی زد پر رکھا۔ توحید و رسالت کے بنیاد اور ممتاز ترین عقیدے کو متنازعہ کرنے کے لئے امکانِ کذب اور امتناع نظیر کے افکار سے متعارف کروایا گیا۔ اہل علم کو اس مکار طریقے سے الجھایا کہ عیسائیت اور ہندو مت کا علمی مقابلہ کرنے کے بجائے باہم مناظرہ بازی میں الجھ کر رہ گئے ۔ مسلمانوں کی صلاحیتیں باہم مناظرہ بازی میں صرف ہوئیں اور مسلمانوں کے اکثریتی گروہ سے مختلف الخیال مکاتب فکر نے جنم لیا اور یہ علمی و اعتقادی اختلاف اختراق میں بدلا اور اب تین بڑے مکاتب فکر مستقل گروہوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں ان مکاتب فکر میں مزید درجہ بندی اوردرجہ بندی میں مزید نئے افکار کی پیوند کاری تاحال جاری ہے۔ سیاسی حکومتیں اپنے مطالب و مقاصد کی تکمیل کے لئے اس گروہ بندی سے اپنی مفید حکمت تیار کرتی ہیں اور کچھ ایسے لوگوں کی سرپرستی کرتی ہیں جو بظاہر دین و مذہب کے نمائندے نظر آتے ہیں لیکن اپنے افکار و اعمال کے حوالے سے علماء سؤ کی تعریف ان پر صادق آتی ہے اور حکومتی اداروں تک ان کی موجودگی پورے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔ کچھ مدعیان دین وہ ہیں جو اپنی طاقتِ لسانی کے زور پر عوام میں مشہور و مقبول ہوتے ہیں لیکن ان کے موضوعات خطاب وہی ہیں جن سے تفریقی افکار کو مضبوطی میسر آتی ہے اور وہ گروہ بندی میںعوام کو مضبوط کرتے ہیں۔ اسلام کے نام پر تفریق و تفرقہ کی ایسی خاموش تربیت ہوتی ہے کہ عوام الناس کا ذہن بہت کم اس خفیہ واردات سے آشنا ہوتا ہے۔ بس ان کے نزدیک اپنی مذہبی شناخت محض ان کا فرقہ ہی ہوتا ہے اور دوسرے مکتب فکر کی تغلیط اورنچلے درجے کی تضحیک کرنا ان کے نزدیک خدمت دین ہے۔