میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں دبستان روایت پر چلنے والی حالیہ بحث پر گزارشات کروں گا۔ طبیعت کی کسلمندی کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوتی جا رہی ہے۔ آج خود پر جبرکر کے اس پر لکھنے بیٹھا ہوں۔ برصغیر میں حسن عسکری وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے رینے گینوں(استاد عبدالوحد یحییٰ) کا تعارف کرایا۔ انہی کے حوالے سے دبستان روایت کا چرچا ہوا اور شواں مارٹن لنگز وغیرہ ہماری فکری بصیرتوں کا حصہ بنے۔ اس فکر کے خلاف پورے برصغیر میں ترقی پسندوں نے جنگ شروع کردی۔ اس کانتیجہ تھا کہ ہم جیسے ذرا شدومد سے اس کے حامی ہو گئے۔ عسکری صاحب پر الزام تھا کہ وہ رینے گینوں کے حوالے سے اسلام کو ادب سے گھسیٹ لاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے لیے صدمے کی بات تھی کہ جو شخص فرانسیسی ادب کا دلدادہ تھا‘وہ اسلام کا نام جپ رہا ہے۔ اشرف علی تھانوی کے تراجم کر رہا ہے اور ابن عربی کا تقابل کر رہا ہے۔ ان کے لیے بہت صدمے کی بات تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دین سے محبت رکھنے والے جم کر حسن عسکری کے کیمپ میں ڈٹے رہے۔ ترقی پسندوں کے اعتراضات بڑے دلچسپ تھے۔ مثال کے طور پر ساقی فاروقی پاکستان میں ان کے اعزاز میں ایک شب ایک طرح کی الوداعی تقریب ان کی بہن شاہدہ کے گھر پر تھی۔ ظاہر ہے گفتگو چھڑ گئی‘ مشہور ترقی پسند نقاد محمد علی صدیقی نے موقع غنیمت جان کر رینے گینوں پر بحث چھیڑ دی۔ لبرل طبقے کو متاثر کرنے کے لیے انہوں نے یہ سطحی سا اعتراض کیا کہ رینے گینوں جمہوریت کے خلاف تھے۔ میں نے تڑپ کر جواب دیا‘ وہ تو آپ ترقی پسند اس جمہوریت کو بورژوا جمہوریت کہتے ہیں، اس پر عزیز حامد مدنی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں جی کہا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ اب جواب دیجئے۔ مدنی صاحب ترقی پسند تو تھے مگر شاعرانہ بصیرت بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے دوسرا اعتراض کیا کہ وہ ترقی (progress) کے خلاف تھے۔ عرض کیا کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے۔ وہ اس ترقی کے خلاف تھے، جس کا تصور نشاۃ ثانیہ کے بعد پیدا ہوا اور جو مادی ترقی ہے۔ اس سے پہلے ترقی کا مطلب روحانی ترقی تھی۔ غرض ہماری زندگیاں انہی ترقی پسندوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے گزر رہی تھیں اور بڑا مزہ آ رہا تھا۔ عسکری کے بازو شمشیر زن سلیم احمد تھے اور ہم گویا اس لشکر کے سپاہی جمال پانی پتی‘ سراج منیر اس زمانے میں عملی طور پر میدان میں تھے اور سہیل عمر گویا اس سلسلہ شازلیہ میں بیعت ہو چکے تھے اور وہ مارٹن لنگز کے پاکستان میں مقدم تھے۔ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مقدم خلیفہ سے پہلے کی ایک منزل ہے۔ انہی دنوں مجھے بھی اس دبستان کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ دراصل سلسلہ شازلیہ کے متاثرین تھے جنہوں نے اسلام قبول کرکے مغرب کے اہل فکر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کی بات کا اپنا انداز تھا۔ مجھے سلسلہ شازلیہ کی عظمتوں پر اب اعتراضات ہے نہ تب اعتراض تھا۔ جس طرح برصغیر میں چشتی سلسلے کا چلن ہے اس طرح شمالی افریقہ (المغرب) میں شازلیہ سلسلہ سب سے زیادہ مروج ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں کے چاروں سلسلوں میں اس کا ذکر نہیں آتا مگر ابن عربی کی طرح ان پر بھی قادری فیوض و برکات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ ابوالحسن شازلی بلاشبہ بلا کے صاحب عرفان صوفی تھے۔ جب رینے گینوں وغیرہ علم و حکمت کے متلاشی تھے تو اس سلسلے کا احیا ہو چکا تھا۔ وہ لوگ اس سے متاثر ہوئے‘ پھر عجیب عجیب نازک نکات نکالے۔ ظاہر ہے ہر مذہبی روایت نئی تہذیبوں میں جا کر نئے پہلو نکالتی ہے۔ اندلس کی سرزمین سے اٹھنے والی اسلام کی فکری تحریکوں کی اپنی شان ہے۔ میں یہاں یہ عرض کرتا چلوں‘ یہ دعویٰ نہیں بلکہ ازراہ انکسار اعتراف ہے کہ میں پہلا شخص تھا جس نے مذہبی نقطہ نظر سے اس دبستان کا مداح ہونے کے باوجود اس پر چند اعتراضات اٹھائے۔ یہ اعتراضات طبع شدہ ہیں۔ یقینا 83ء سے پہلے کے ہیں۔ غالباً انہی دنوں میں نے نوائے وقت میں جھلکیاں کے نام سے ایک کالم یہ کہہ کر شروع کیا کہ استاد کا مال ہے‘ مجھ پر حلال ہے۔ یہ میں نے اس تناظر میں کہاتھا کہ اس نام سے عسکری صاحب لکھا کرتے تھے‘ ان کے انتقال کے بعد جب سلیم احمد نے اسی نام سے لکھنا شروع کیا تو یہی بات کی۔ میں نے گویا یہ عرض کیا تھا کہ میں اپنے استادوں کی روایت ہی کو آگے بڑھا رہا ہوں چونکہ ان اعتراضات پر میری سلیم احمد سے مفصل گفتگو ہوتی تھی‘ اس لیے مجھے یقین ہے کہ ان کی زندگی میں یعنی یکم ستمبر 1983ء سے پہلے لکھا گیا تھا۔ اس پر جمال پانی پتی سے بحث بھی چھڑ گئی تھی۔ مجھ میں اتنی ہمت نہ تب تھی نہ اب ہے کہ میں حسن عسکری یا یورپ کے ان نو مسلم مفکرین کو گمراہ قرار دوں۔ میں نے وضاحت کردی تھی میرا اعتراض ایسا ہی ہے جیسا ایک نقشسندی کو ایک چشتی پر یا ایک حنبلی کو ایک حنفی پر ہو سکتے ہیں۔ معاذ اللہ کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی مجھ میں جرأت نہیں۔ آج بھی میرا یہی موقف ہے اور اس پر بقائمی ہوش و حواس قائم ہوں۔ مجھے یاد ہے میرا پہلا اعتراض اس پر یہ تھا کہ ان کے ہاں روایت مذہب سے Prior پہلے ہے۔ گویا اصل چیز روایت ہے اور مذہب اس میں سے نکلا ہوا ہے۔ سلیم احمد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پہلی بار کسی نے اس پر دینی تناظر میں اعتراض اٹھائے ہیں۔ پھر انہوں نے وضاحت کی کہ آپ روایت کو عسکری صاحب کے معنوں میں لیں۔ برسوں بعد بلکہ حال ہی میں برادرم سہیل عمر نے اس پر مجھے عسکری صاحب کی بعض تحریروں کی نقل بھیجی جو میری نظر سے گزر چکی تھی۔ میں نے سلیم بھائی کو جواباً عرضا کیا کہ نہیں میں روایت کے وہ معنی سمجھتا ہوں جو آپ نے بیان کئے ہیں۔ سلیم احمد نے چار طرح کی تقسیم کی ہے۔ 1۔ مذہبی روایت‘ 2۔ غیر مذہبی روایت۔‘ 3۔ روایتی مذہب اور غیر روایتی مذہب۔ اس کے معنی یہ نکلتے ہیں کہ سلیم احمد روایت کو تصوف کے معنی میں لیتے ہیں۔ دبستان روایت کے مطالعے سے جو بات مجھ پر واضح ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ سلیم احمد درست کہتے ہیں۔ یہاں مابعد الطبیعات ایک ہونے کی بحث شروع ہوئی ہے۔ ادیان عالم کا معاملہ آتا ہے اور رسالت کا معاملہ بھی آتا ہے۔ یہ بحثیں یہ خاکسار کر چکا ہے۔ اس پر انشاء اللہ آئندہ لکھنے کی کوشش کروں گا۔