جاوید اختر بھارتی شاعر اور نغمہ نگار ہیں‘ انھوں نے فلموں کے کئی لازوال گیت لکھے اور سرحد پار بھی شہرت پائی۔گزشتہ ہفتے لاہور میں فیض احمد فیضؔ کے نام پر سجائے جانے والے ایک میلے میں جاوید اختر کوبھی مدعو کیا گیا‘اس دعوت کا مقصد دونوں ممالک کی سیاسی قوتوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ قلم کار اور فنکار امن کے سفیر ہوتے ہیں‘یہ انارکی اور انتشار کے ماحول کو بھائی چارے کی خوشبو سے معطر کرتے ہیں اور حقیقی معنوں میں یہی لوگ کسی بھی ملک اور ریاست کی شناخت ہوتے ہیں۔ جاوید اختر جو اپنے متنازعہ رویے کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہے اور خود کو انقلابی بنانے کی کوشش میں ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنے‘وہ فیض میلے میں بھی اپنی زبان پر قابو نہ رکھ سکے اور ایک سوال کے جواب میں پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ان سے جب سوال کیا گیا کہ’’کیا آپ بھارت جا کر یہ بتائیں گے کہ پاکستان میں ہر روز بم نہیں پھوٹتے بلکہ یہاں کے عوام دونوں ملکوں کے درمیان امن کا تعلق چاہتے ہیں‘‘۔جاوید اختر نے جواب میں کہا کہ ’’ہم بمبئی حملوں کے لوگ ہیں‘ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے شہر میں کیسے حملہ ہوا‘حملہ آور ناورے سے تو نہیں آئے تھے‘وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں‘‘۔ جاوید اختر کے اس متنازعہ بیان کو جہاں بھارت میںسرجیکل اسٹرائیک اور پاکستان میں بیٹھ کر دلیرانہ بات کرنے پر سراہا جا رہا ہے‘وہاں پاکستان کے باشعور عوام اور تاریخ سے گہرا شغف رکھنے والے قارئین جاوید اختر کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں‘افسوس اس بات پر ہے کہ ہال میں بیٹھے سینکڑوں حاضرین میں سے کسی ایک میں بھی جرات نہیں ہوئی کہ وہ جاوید اختر سے یہ پوچھے کہ ’’جناب کلبھوشن یادیوکہاں سے آیا تھا‘‘یا اس سے قبل درجنوں موقعوں پر بھارت نے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا‘اس وقت آپ کو انقلاب کیوں نہیں یاد آیا؟جاوید اختر کا یہ شکوہ بھی بے معنی ہے کہ ’’ہم نے نصرت فتح علی خان کے کنسرٹ کروائے مگر پاکستان میں لتا منگیشتر کا کوئی میوزیکل کنسرٹ کیوں نہیں ہوا‘‘۔یہاں بھی جاوید اختر کو اپنی تاریخ تعصب کی عینک اتار کر پڑھنے کی ضرورت ہے‘ لتا منگیشتر اور استاد سلامت علی خان کی محبت اور وعدے تاریخ کا حصہ ہیں۔ ادبی میلوں یا کانفرنسوں میں دوسرے ممالک سے مندوبین کو بلانے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ علمی و ادبی سطح پر مکالمے کو فروغ دیا جائے‘ایک دوسرے کے کاموں کو سراہا جائے اور سیاسی سطح پر بھی امن کے فروغ کو یقینی بنایا جائے‘سرد جنگوں کا خاتمہ صرف مکالمے سے ممکن ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے قلم کاروں و فنکاروں کی ہمیشہ کوشش رہی کہ ایک دوسرے کو مدعو کیا جائے تاکہ برسوں سے جاری خانہ جنگی کو محبت میں بدلا جا سکے۔جاوید اختر نے اس کوشش کو شدید نقصان پہنچایا اور اس چیز کا پیغام دیا کہ بھارت اس خانہ جنگی کو ختم کرنا ہی نہیں چاہتا۔پہلے بھی عرض کی کہ فنکار اور قلم کار معاشرے میں امن کے سفیر کے طور پر کام کرتے ہیں مگر یہاں معاملہ بالکل الٹ نظر آ رہا ہے۔ جاوید اختر کو 26نومبر 2008ء کا بمبئی حملہ تو یاد ہے مگر جناب کو کلبھوشن یادیو کیوں بھول گیا؟یہ واقعہ 3مارچ 2016ء کا ہے یعنی تازہ ترین واقعہ۔کلبھوشن نے تو تسلیم بھی کیا تھا کہ بلوچستان علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کاروائیوں کے پیچھے انڈین ایجنسی’را‘کا ہاتھ ہے۔کلبھوشن نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ’’پاکستان میں اس کے داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں سے ملاقات اور قتل سمیت درجنوں گھنائونے جرائم میں سپورٹ کرنا تھا‘‘۔ جاوید اختر کو بمبئی میں مرنے والے ڈیڑھ سو افراد یاد رہے اور اس کا الزام میں ڈھٹائی سے پاکستان پر رکھ دیا مگر جو کچھ پاکستان میں برسوں سے ہو رہا ہے اور جس کے شواہد بھی پاکستانی ایجنسیز نے بھارت کے سامنے رکھے‘جاوید اختر کو وہ کیوں بھول گیا۔ میں جاوید اختر کو الزام دینے سے بھی پہلے فیض میلے کی انتظامیہ کوالزام دیتا ہوں‘انھوں نے فیض کے نظریات اور افکار کو جیسے مذاق کا نشانہ بنایا‘ہم سب دیکھ رہے ہیں۔فیض ایک پسے ہوئے پسماندہ طبقے کا شاعر تھا‘انھوں نے جس طبقے کی بات کی‘آپ کو فیض کے نام پر سجائے جانے والے میلے میں کم از کم وہ طبقہ بالکل نظر نہیں آئے گا۔مزید اگر ہمسائے ممالک سے کسی کو مدعو کرنا ہی مقصود تھا تو کسی اچھے نقاد یا دانشور کا انتخاب کیا جاتا جو فیض جیسے قدآور شاعر پر بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوتاجیسے ڈاکٹر علی احمد فاطمی‘انیس اشفاق اورشافع قدوائی ۔ جاوید اختر کے متنازعہ بیان کو جہاں پاکستان میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘وہاں بھارتی قلم کار اور فنکار بھی اس بیان پر نالاں ہیں۔ سب کا یہی کہنا ہے کہ جاوید اختر کو میزبانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا کہ انھوں نے جنگ و جدل کے ماحو ل میں بھی دونوں ملکوں کے سفیروں کو ملانے کا موقع فراہم کیا‘جاوید اختر کو انتشار پھیلانے کی بجائے امن کا پیغام دینا چاہیے تھا تاکہ برسوں سے جاری اس خانہ جنگی کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکتا۔ بھارت اور پاکستان ایک ہی خطے کے دو چہرے ہیں‘دونوں ملکوں کا ادب اور آرٹ ہم سب کا مشترکہ ہے‘ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے ادیبوں اور دانشوروں کو اجازت دی جائے کہ ایک دوسرے سے مل سکیں‘مکالمے کے فروغ کو یقینی بنا سکیں تاکہ امن کی راہ ہموار ہو سکے۔ ایسے تمام فنکاروں اور قلم کاروں پر پابندی ہونی چاہیے جو دونوں ملکوں میں امن کو خراب کر رہے ہیں اور جو ذاتی انا اور تکبر کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہے۔پاکستان اور بھارت کی امن پسند قوتیں اگرچاہتی ہیں کہ دونوں ملکوں کا امن خراب نہ ہو تو انتہائی سنجیدگی اور سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے تمام دانشوروں پرنظر رکھیں جو انتشار کو ہوا دے رہی ہیں اور امن کی کوششوں کو ناکام بنا رہی ہے۔