کتنے اندیشوں میں وہموں میں گھرا بیٹھا ہوں میں تہی دست ہوں سوچوں میں گھرا بیٹھا ہوں میری کھڑکی سے نظر آتے ہیں اڑتے پنچھی اور میں ہوں کہ کتابوں میں گھرا بیٹھا ہوں کتابوں کے درمیان اخبار بھی تو ہیں جو باہر کی دنیا کی خبر دیتے ہیں اور اسی دنیا کے حولے سے مجھے لکھنا بھی ہوتا ہے۔ آج میری توجہ کا مرکز ان نابغہ ہائے سیاست کا بیان بنا ہے کہ جو تشدد کے خلاف ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ برداشت کی بات کرتے ہیں۔ آپ کو سمجھانے کے لیے میں ایک دلچسپ مگر مضحکہ خیز مثال دوں گا۔ ایک اسلامی تنظیم کے مقرر نے بھرے مجمع میں تقریر کرتے ہوئے خوش خطابت میں کہا مجھے پیچھے سے ٹھڈے مارے جا رہے ہیں کہ میں تقریر بند کردوں کہ مناسب نہیں مگر میں تقریر بند نہیں کروں گا کیونکہ مجھے تقریر کرنا اس جماعت نے سکھایا ہے جس نے غنڈہ گردی کا جواب ہمیشہ ظلم اور بربریت سے دیا ہو۔ آپ اس ظلم وبربریت سے یقینا وقف ہوں گے۔ اب آتے ہیں ہم اصل بیان کی طرف جو سب سے پہلے فواد چودھری نے دیا ہے کہ وزرا کو مجرموں کو سرعام پھانسی کا مطالبہ متشدد سوچ ہے گویا کہ کچھ وزرا عوامی دبائو میں یا اپنے ضمیر کی بیداری کے باعث کچھ زیادہ ہی غصے میں آ گئے ہیں اور انہوں نے عوامی مطالبے کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ متشدد سوچ کے افراد بغیر ہچکچاہٹ ہر مسئلے کا حل تشدد کو سمجھتے ہیں۔ معزز قارئین! آپ جانتے ہوں گے کہ موصوف کے بارے میں عام تاثر بھی یہی ہے کہ وہ ہتھ چھٹ ہیں مگر اتنے بھی نہیں کہ سامنے والے کی طاقت کا اندازہ لگائے بغیر فیصلہ کرلیں۔ نہ جانے کیوں مجھے مشفق خواجہ کا ایک جملہ یاد آ گیا کہ جب کشور ناہید کو اردو سائنس بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تو انہوں نے لکھا کہ اچھا کیا جو کشور ناہید کو اردو سائنس بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے کیونکہ کشور ناہید کو اتنی ہی سائنس آتی ہے جتنی آئین سٹائن کو اردو آتی تھی۔ چلیے کشور جی کا خوبصورت شعر تو آپ پڑھ لیں: کچھ اس قدر تھی گر گئی بازار آرزو دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا دوسرا بیان وسیم اکرم کی بیگم شنیرا کا ہے کہ زیادتی کے ملزم کو پھانسی مسئلے کا حل نہیں۔ آپ یقین جانئے کہ یہ بیان فواد چودھری کے بیان سے کہیں زیادہ دانشمندانہ ہے کہ وہ کہہ رہی ہیں کہ اپنے سسٹم کو درست کیا جائے کہ محفوظ معاشرے کے لیے تاریکی کے دور سے نکلنا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خواتین کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والوں‘ ننھی جانوں کے ساتھ شیطانی کھیل کھیلنے والوں اور انہیں بے دردی سے قتل کرنے والوںکوبٹھا کر اخلاقی لیکچر دیئے جائیں۔ یہ محاورے یونہی نہیں بنے ہوئے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ دوسرا یہ کہ ڈنڈا پیر اے بگڑیاں تگڑیاں دا۔ پھر یہ کہ جسم کو بچانے کے لیے ناسور کو کاٹنا پڑتا ہے۔ معاشرے کو درندوں اور ان کے پالنے والوں سے پاک کرنا ازحد ضروری ہے۔ خس کم جہاں پاک والا معاملہ ہے ہم اس ہستی سے زیادہ نہیں جان سکتے جس نے ہمیں تخلیق کیا۔ ظالموں کو عبرت کا نشان بنانا از بس ضروری ہے۔ نہ کہ آپ اہل مغرب کو خوش کرنے کے لیے ایسے بیان دیں کہ جس سے پوری قوم کی دل آزاری ہو۔ قتل کرتا ہے ہمیں اور وہ قاتل بھی نہیں بے حسی وہ ہے کہ ہم رحم کے قابل بھی نہیں وہ اور مقام ہیں جہاں بردباری‘ وضعداری‘ برداشت اور وسعت قلب کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ رواداری‘ بھائی چارہ اور کشادگی وہاں دکھائیں جہاں یہ سودمند ہو۔ وہاں ہم اس کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ مثلاً آپ اپنے نظریات کو دوسروں پر نہ ٹھونسیں۔ مکالمے کے ہم قائل نہیں۔ ہم کسی سے بات کرتے ہیں تو منوانے کے لیے سچ پر پہنچنے کے لیے۔ ہم کسی کی بات سن بھی رہے ہوتے ہیں تو سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ اس دوران میں اس کا جواب سوچ رہے ہوتے ہیں کہ دوسرے کو لاجواب کیسے کرنا ہے۔ کسی سے ہم اللہ واسطے کا ہی بیر رکھتے ہیں کہ ہمیں اس کی صورت ہی پسند نہیں۔ یہ فرقہ بندی اور ذات پات یہ سب کیا ہے جس نے پوری قوم کو پارہ پارہ کر رکھا ہے: فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں مجھے خیال آیا ، تھانوں میں ہونے والے تشدد کوکیا کہیں گے کہ یہ تشدد سچ مچ ہوتا بھی ہے اور یہ اس وقت تشدد کہلائے گا جب یہ بے گناہوں پر رشوت حاصل کرنے کے لیے ہوگا مگر بعض اوقات مجرموں کو سیدھا کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ کہیں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ عام فہم مثال ایک ڈاکٹر کی ہے جو بچوں کو پکڑ کر ٹیکہ لگاتے ہیں تو یہ تشدد بچے کی بہتری کے لیے ہوتا ہے اور جو ڈاکٹر سادہ لوح لوگوں کے گردے نکال کر بیچتے ہیں تو کیا ان کے ساتھ پیار کی باتیں کی جائیں۔ کیا اسلامی تعلیم کے مطابق ایسے ڈاکٹروں کا گروہ نہ نکالا جائے؟ بہرحال یہ سوچ بچار کا وقت ہے۔ جلیل عالی نے درست کہا: زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں ایک دن میں کہاں انداز نظر بنتا ہے واقعتاً یہ سوچ اور عمل کا تسلسل ہے کہ جو نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔ ہم کچھ وقت میں ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اپنے اپنے انداز میں خود کو طفل تسلیاں دے کر سلا دیتے ہیں۔ یہ مسئلے کا حل ہرگز نہیں کہ کوئی تھپڑ مارے تو اس کے سامنے دوسرا گال بھی کردیا جائے۔ بہتر ہے کہ تھپڑ مارنے والے کا منہ بھی جوابی تھپڑ سے لال کردیا جائے۔ آخر میں گزارش ہے کہ انصاف کے لیے مظلوم اور مجروح کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے۔ یہ اس کا نہیں سارے معاشرے کا دفاع ہے۔ اس سے آپس کی محبت بھی پیدا ہوگی۔ اللہ ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آخر میں محمد عباس مرزا کے دو دعائیہ اشعار: صبح کو گھر سے پائوں اٹھا کر مانگ دعائیں شام کو خود کو زندہ پا کر مانگ دعائیں شاید تیرے دل میں ٹھنڈک پڑ جائے‘ سو آنکھوں کی جھیلیں چھلکا کر مانگ دعائیں