وفاقی حکومت نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان غریب اور تنخواہ دار طبقے کی سہولت کی خاطر 15ارب روپے کا امدادی پیکیج لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں رجسٹرڈ تندوروں کو سستا آٹا فراہم کرنے اور عوام کو یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے ریلیف دینے کا فیصلہ ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ غریب اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف مہیا کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں گندم اور آٹا بحران کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ بھی دیا ہے۔ وطن عزیز میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اکثر مصنوعی قلت کے باعث ہوا ہے۔ خاص طور پر اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بڑھانے میں ذخیرہ اندوز اور گراں فروش عناصر کا ہاتھ رہا ہے۔ گندم ‘ چاول‘ چنے‘ دالیں، چینی جیسی اشیاء کی پیداوار ہمیشہ سالانہ قومی ضروریات سے زیادہ رہی ہے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے پنجاب پورے ہندوستان کا اناج گھر کہلاتا تھا۔ پاکستان وجود میں آیا تو شدید قحط سالی اور سیلاب کے چند برسوں کے سوا ملک میں کبھی اناج کی کمی نہیں ہوئی۔ صرف قومی ضروریات ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ملک افغانستان کی غذائی ضروریات بھی پاکستان سے پوری ہوتی ہیں۔ وافر زرعی پیداوار نے کچھ سماجی رویوں کو مستحکم کیا ہے۔ دنیا کے صنعتی ممالک میں شہری روزانہ راشن خریدتے ہیں مگر پاکستان میں اب بھی غریب طبقات کی کوشش ہوتی ہے کہ ہفتے یا مہینے کا راشن گھر میں رکھیں۔ غذائی اجناس پیدا کرنے والے کاشت کاروں کو دیکھیں تو ان کی زندگی میں آسودگی نام کو نظر نہیں آتی۔ کبھی انہیں شوگر ملز مالکان سے شکایات ہوتی ہیں اور کبھی فلور ملز والوں سے۔ اس خرابی میں سبزی اور فروٹ منڈیوں میں بیٹھے آڑھتی بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ مسائل اس وقت سنگین ہو جاتے ہیں جب کچھ لوگ مارکیٹ سے کسی خاص چیز کی بڑے پیمانے پر خریداری کر کے اسے ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ جونہی کھلی منڈی میں اس شے یا جنس کی قلت ہوتی ہے یہ نرخ بڑھا کر اپنے ذخیرے کو دکانوں پر لے آتے ہیں۔ یہ صورت حال عشروں سے برقرار ہے۔ حکومتیں آتی اور جاتی رہیں مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا۔ اس طرح کے مصنوعی بحران نے صدر ایوب کو غیر مقبول بنایا‘ آٹا بحران نے 2008ء میں ق لیگ کو عبرت ناک شکست دلائی۔ مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت میں یہ نعرہ لگنے لگا کہ ’’شیر آٹا کھا گیا‘‘۔ سیاستدانوں نے ایک غفلت یہ برتی کہ اس خرابی کو دور کرنے کی بجائے ہمیشہ ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کی سرگرمیوں کو اپنے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا۔ یہ صورت حال آج بھی برقرار ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر الزامات سے عوام میں یہ تاثر جا رہا ہے کہ بعض حکومتی اراکین اس مہنگائی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے تمام طبقات کو ایک ہی اصول کے مطابق راشن کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ راشن ڈپو قائم کئے گئے۔ برا یہ ہوا کہ ایسے ڈپو اپنے سیاسی کارکنوں کو دیے جنہوں نے حکومت کی مدد کے بجائے راشن کی تقسیم میں کرپشن کو رواج دیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے سستی روٹی کے نام پر ایک منصوبہ شروع کیا۔ اربوں روپے خرچ ہو گئے سرکار کی طرف سے رعائتی نرخوں پر جو آٹا ملتا وہ اگلے دن کھلی مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا۔ حکومت نے آٹے کے تھیلے کا رنگ مخصوص کر دیا لیکن کرپشن نہ رک سکی۔ اس بات کا خدشہ اب بھی موجود ہے کہ اشیائے خورو نوش کی خریدوفروخت اور پیداوار سے متعلق افراد کو گراں فروش اور ذخیرہ اندوز عناصر نے اپنے مخفوص ہتھکنڈوں سے قابو کر لیا ہو۔ ایسا ہے تو حکومت کے اعلان کردہ امدادی پیکیج کے ثمرات مستحق لوگوں تک پہنچنے کی بجائے اسی مافیا کی جیب میں جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم غریب اور نچلے طبقات معاشی بدحالی پر رنجیدہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افلاس زدہ افراد خط غربت سے اوپر آ جائیں۔ ان کی تقاریر میں چین کی ستائش بے جا نہیں جس نے چند برسوں میں 70کروڑ شہریوں کو غربت کے شکنجے سے نکالا۔ گزشتہ دو ہفتوں سے وزیر اعظم نے مہنگائی پر توجہ دے رکھی ہے۔ ان کی اس توجہ کا نتیجہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے تاہم حکومت کو اس طرح کا طریقہ کار طے کرنے کی ضرورت ہے جس سے سبسڈی کی رقم ذخیرہ اندوزوں کی بجائے عوام کے لئے فائدہ مند ہو۔ اس سلسلے میں موجودہ انتظامی ڈھانچہ قابل اعتبار نہیں۔ وزیر اعظم منصوبے کی شفافیت برقرار رکھنے کے لئے پاک فوج سے نفری طلب کر سکتے ہیں۔پہلے بھی گھوسٹ سکولوں اور اساتذہ کا کھوج لگانے‘ بجلی کے غیر قانونی کنکشنوں کے خاتمہ‘ انسداد پولیو مہم کے لئے حفاظتی ذمہ داریاں فراہم کر کے اور سیلاب و زلزلوں میں سول انتظامیہ کی مدد کر کے پاک فوج بہترین نتائج فراہم کرتی رہی ہے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب اور تنخواہ دار طبقات کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت کی جانب سے گراں فروشوں کے متعلق رپورٹ تیار کر لی گئی ہے۔ امید ہے کہ آئندہ چند روز میں اناج اور اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف متعلقہ ادارے حرکت میں آ جائیں گے۔ حکومت کی طرف سے موثر مانیٹرنگ کا بندوبست کر لیا جائے تو اس کی انتظامی تدابیر کارگر ہو سکتی ہیں۔ تحریک انصاف عوامی شکایات کے لئے اپنے تنظیمی ڈھانچے سے کام لے تو متعدد شعبوں میں آسانیاں بہم ہو سکتی ہیں۔ ذخیرہ اندوز اور گراں فروشوں کی سرگرمیوں نے ملک میں ہیجان پیدا کیا ہے۔ ان کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی نہ کر کے ماضی میں مجرمانہ فعل کا ارتکاب کیا گیا اس مافیا کو جڑ سے اکھاڑا نہ گیا تو یہ حکومتوں کو گرانے اور معاشرے میں انتشار پھیلانے سے گریز نہیں کرے گا۔