ہابز نے کہا انسان خود غرض اور درندہ ہے۔ یہ معاشرہ ہی ہے جو انسان کو اپنی خود غرضی اور وحشت کو لگام ڈالنا سکھاتا ہے۔ ماہرین سماجیات کے مطابق معاشرتی اقدار اور معاشرے کے اجتماعی رویوں کی تشکیل میں اس ملک کے قوانین اور حکومتی رٹ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ مگر حکومتیں معاشرے سے جرائم کے انسداد کے لئے صرف قوانین اور سزائوں پر ہی انحصار نہیں کیا کرتیں۔آج دنیا بھر میں جرائم کے تدارک کے لئے کریمنل سائیکالوجی سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ماہرین نفسیات عدالتوں کی معاونت بھی کر رہے ہیں۔ ترکی میں جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو حکومت نے اس بہیمانہ فعل کے اسباب جاننے کے لئے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی ،جس میں پولیس کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ماہرین نفسیات کو شامل کیا گیا۔ استنبول کی معروف ماہر نفسیات شیکایوکسل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ’’یہ سمجھنا کہ آدمی جنسی تسکین کے لئے ریپ کرتے ہیں سراسر غلط ہے۔ کوئی بھی سڑک پر،ہجوم میں ایسا نہیں کرتا کیونکہ سبھی جانتے ہیں یہ غلط کام اور جرم ہے اس لئے جرم کو اندھیرے میں چھپ کر کیا جاتا ہے ۔یوکسل کہتی ہیں ریپ جنسی عمل نہیں بلکہ حملہ ہوتا ہے اس کا مقصد جیتنا اور انتقام لینا ہوتا ہے یہ ایک چیز پر قابو پانے اور انتقام لینے کا عمل ہے اور عورت اس عمل میں ایک چیز ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حکمرانوں نے جرائم ختم کرنے کی ذمہ داری پولیس کے سر تھوپ رکھی ہے۔ حالانکہ پولیس کا کام مجرموں کی سرکوبی ہے ،مجرمانہ سوچ کا خاتمہ ہرگز نہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں جرائم بالخصوص جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقعات میں مجرم کے پکڑے جانے اور سزا کے باوجود اضافہ ہو رہا ہے۔ زینب زیادتی کیس میں مجرم کو پھانسی ہوئی مگر اس کے باوجود قصور میں بچوں سے زیادتی کے واقعات نہ رک سکے۔ سرگودھا سے جنسی ویڈیوز بلیک ویب کو فروخت کرنے والا پکڑا گیا مقدمہ بھی بنا مگر جرم موجود رہا۔ وجہ دانیال طریرنے بیان کر دی: درندے ساتھ رہنا چاہتے ہیں آدمی کے گھنا جنگل مکانوں تک پہنچنا چاہتا ہے ہماری حکومت کیا کرتی ہے ؟جو درندہ انسانیت کے مکانوں تک پہنچتا ہے اس کو ختم کر کے معرکہ سر کیا جاتا ہے۔ نتیجہ درندگی کا گھنا جنگل مکانوں تک پہنچ چکا ہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت انسانیت کے مکانوں کو درندگی سے محفوظ رکھنے کے لئے حفاظتی باڑ لگاتی اور یہ باڑ جرائم کے اسباب جاننے کے بعد اقدامات کے بغیر لگانا ممکن نہیں۔ ہمارے حکمران ہر سانحہ کے بعد واقعہ کو جرائم کے خاتمے کے اقدامات کرنے کے بجائے سیاسی ایجنڈے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہی گجر پورہ کے قریب پیش آنے والے سانحے کے بعد کہا جا رہا ہے۔ ایک عورت کی عزت کو بچوں کے سامنے تار تار کیا گیا۔ اس ظلم پر سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا تو حکومت نے پولیس پر مجرموں کی گرفتاری کے لئے دبائو بڑھایا اور اپوزیشن نے مجرموں کو سزا دینے کے بجائے سی سی پی او کو سزا دینے کا مطالبہ کر دیا۔ وہ بھی ایسے سی سی پی او کو جس نے دو دن پہلے چارج لیا تھا اور تقرری کے اعلان کے بعد ہی اپوزیشن اس کی سخت گیری کی وجہ سے خائف ہو کر عدالت سے تقرر نامے منسوخ کروانے کا اعلان کر چکی تھی بلکہ بااثر مجرمان کے گرد قانون کا شکنجہ کسنے کی صورت میں سی سی پی او کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ مسلم لیگ ن کی رہنما اور سابق وزیر اطلاعات نے تو گجر پورہ سانحے کے بعد اپنی توپوں کا رخ بھی سی سی پی او کی طرف موڑ دیا ہے بیانات کی تلخی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر ممکن ہوتا تو اس بہیمانہ فعل میں سی سی پی او کو شریک جرم قرار دینے سے بھی گریز نہ کیا جاتا۔ جنسی زیادتی کا یہ ملک میں پہلا واقعہ نہیں۔ صرف لاہور ہی نہیں ملک بھر میں معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے پھر سوال تو یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر جب پنجاب کے حکمران تھے تو کیا انہوں نے زینب قتل کیس کے بعد سی سی پی او کو کٹہرے میں کھڑا کیا تھا؟اپوزیشن کے غیر سنجیدہ رویے پر تو جوشش عظیم آبادی کا شعر صادق آتا ہے: کفر پر مت طعن کر اے شیخ میرے روبہ رو مجھ کو ہے معلوم کیفیت ترے اسلام کی آج اپوزیشن عمر شیخ کی تعیناتی پر تحریک انصاف کے کفر پرطعن کر رہی ہے مگر جب شیخ خود اقتدار میں تھے تو کیا معاملہ تھا ۔پاکستانیوں کے اذھان سے ابھی وہ منظر محو نہیں ہوا ہو گا جب جناب خادم اعلیٰ کے ہمراہ زینب کے والد کی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ خادم اعلیٰ کے مجرم کی گرفتاری پر داد سمیٹنے کے بعد جب مظلوم زینب کے باپ نے اپنا دکھ بیان کرنا چاہا تو حضرت شیخ نے ان کا مائیک بند کر دیا تھا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت میں جرائم کی تعداد بڑھتی یا مسلم لیگ کے دور میں زیادہ اندھیر نگری تھی ،مسئلہ یہ ہے کہ دونوں حکومتوں نے جرائم کی روک تھام کے لئے کیا اور کیسے اقدامات کئے۔ تحریک انصاف اور عمر شیخ سے ہمدردی اپنی جگہ، مگر سچ یہی ہے کہ ابھی تک جرائم کی سوچ کے سدباب کے بجائے مجرموں کی سرکوبی کو ہی مسئلہ کا حل سمجھا جا رہا ہے ۔سرگودھا سے پکڑے جانے والے جنسی درندہ اور قصور میں بربریت کے پیچھے وجوہات کا انکشاف ہوا۔ مجرموں نے صرف جنسی تسکین کے لیے بہیمانہ ظلم نہیں کیا بلکہ اس قبیح فعل میں بے پناہ پیسے کا بھی عمل دخل تھا ۔ قصور میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں مجرموں کو سیاسی پشت پناہی کی باتیں بھی زبان زد عام رہیں۔حکومت مجرم تو پکڑتی رہی مگر مجرمانہ سوچ کے خاتمے کے لئے اسباب کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت کسی نے محسوس نہ کی۔ مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹکانے سے جرائم کم نہ ہوں گے بلکہ مجرمانہ سوچ کے تدارک کی سبیل کرنا ہو گی۔ المیہ تو یہ ہے کہ اسباب کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس کی وجہ جرائم پیشہ افراد کو سیاسی اشرافیہ کی پشت پناہی ہے۔ کریں کس سے اپنی تباہی کا شکوہ کہ خود رہنما رہزنوں سے ملے ہیں