دیرآید درست آید‘ تحریک لبیک اور حکومت کے مابین معاملات مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل ہوئے‘ قوم نے سکھ کا سانس لیا‘ فرانسیسی سفیر کا معاملہ اب پارلیمنٹ کے سپرد ہے اور قوم کا اجتماعی شعور یقینا بہتر فیصلہ کرنے میں مددگار ہو گا‘18اپریل کو پوری قوم اعصابی دبائو کا شکار رہی‘ لاہور کے چوک یتیم خانہ پر تحریک لبّیک پاکستان کے پرجوش کارکن اور پولیس و رینجرز کے دستے ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے کھڑے تھے اور پرامن شہری لال مسجد یا ماڈل ٹائون جیسے کسی افسوسناک ‘شرمناک اور المناک سانحہ کے خوف سے لرزہ براندام‘ غلطیاں دونوں طرف سے ہوئیں اور انہیں بار دگر دہرانے سے دونوں نے گریز کیا‘ ورنہ بگاڑ کے سارے عوامل یکجا ہو گئے تھے اور دونوں طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ مزید بگاڑ کو جنم دیتا‘ یہ بحث اب عبث ہے کہ پانچ ماہ تک حکومت نے تحریک لبیک سے طے شدہ معاہدے کو پارلیمنٹ میں پیش کیوں نہ کیا؟ اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری کیوں نہ نبھائی اور معاہدے پر عملدرآمد کی مقررہ تاریخ سے ایک ہفتہ قبل حافظ سعد رضوی کو گرفتار کر کے پورے ملک میں کوچہ و بازار کی بند ش کی راہ کیوں ہموار کی‘ کم و بیش پچیس لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو عجلت میں دہشت گرد اور کالعدم قرار دینے‘ ہزاروں گرفتاریوں اور میڈیا پر پابندی کے باوجود مطلوبہ نتائج کیوں حاصل نہ ہوئے ؟اور بالآخر سرکاری سطح پر دہشت گرد کالعدم قرار دی گئی تنظیم سے مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟وغیرہ وغیرہ۔ غالب نے کہا تھا ؎ قطرہ جو دریا میں مل جائے تو دریا ہو جائے کام اچھا ہے وہ‘ جس کا کہ مآل اچھا ہے حکومت اور تحریک لبیک کے مابین افہام و تفہیم سے ملک میں برپا ہیجان و اضطراب ختم ہوا‘ ایک ہی مقصد کے لئے سرگرم دو فریقوں کے مابین طریقہ کار پر اختلاف سے پیدا شدہ تلخیوں میں کمی آئی اور بحرانی کیفیت سے فائدہ اٹھانے کے خواہش مند عناصر کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا‘ یہ ان مذاکرات کا اصل اور نقد ثمر ہے۔ اس بحران سے فریقین نے سبق سیکھا تو دونوں کے علاوہ ریاست اور قوم دونوں کے لئے موجب خیرو برکت ہو گا۔ خیر سے شر کا ظہور اپنے گریباں میں جھانکنے‘ غلطیوں سے سبق سیکھنے اور ان کا اعادہ نہ کرنے سے ممکن ہے۔ تحریک لبیک کی قیادت اپنا مقدمہ اب سڑکوں کے بجائے عدل و انصاف اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں لڑنے کی تیاری کرے۔ علامہ عنائت اللہ مشرقی کی تحریک خاکسار‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس احرار‘ صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی سمیت کئی مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر منظم ہونے والی جماعتوں نے عزم و ہمت ‘عزیمت و استقامت کی داستاں رقم کی‘ مخالفین تک ششدر رہ گئے مگر طاقت کے بے جا زعم اور ترجیحات میں بنیادی غلطی کے باعث ریاست سے ٹکرائیں اور پاش پاش ہو گئیں۔ بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ریاست کو سمجھا نہ اس کی محدودات اور طاقت کو اور نہ عصری تقاضوں کا ادراک کیا‘قائد اعظم زندگی بھر پرامن سیاسی جدوجہد پر اصرار اسی باعث کرتے رہے کہ عوم میں مقبول سیاسی و مذہبی قوت کے پاس سب سے مضبوط طاقتور‘ موثر اور ثمر آور ہتھیار’’ پُرامن جدوجہد ‘‘اور ریاستی تشدد کے مقابلے میں ’’ مظلومیت‘‘ ہوتی ہے‘ جونہی آپ نے قانون کو ہاتھ میں لیا‘ عوامی ہمدردی سے محروم اور مسلح ریاستی اداروں کے غیظ و غضب کا شکار ہو گئے۔1977ء کی تحریک نظام مصطفیﷺ کے دوران پاکستان قومی اتحاد کو حکمران ٹولے پر اخلاقی برتری یہی رہی کہ وہ ریاستی طاقت کے مقابلے میں نہتے اور پُرامن اور پولیس و رینجرز کے علاوہ فوج کے اہلکاروں کے جذبہ انسانی ہمدردی کو جگانے میں کامیاب رہے۔ تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے اعلیٰ ترین مقصد کی حامل جماعت کے کارکن اگر بار بار قانون کو ہاتھ میں لینے‘ سڑکوں کی بندش اور سرکاری اداروں سے ٹکرانے کے باعث عوامی ہمدردی سے محروم ہو جائیں‘ بے رحم پروپیگنڈے کی یلغار سے مظلوم کی بجائے ظالم نظر آنے لگیں تو کتنی دیر تک ریاستی طاقت کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ جبکہ یہی طاقت اگر وہ انتخابی میدان میں جھونکیں‘ عوام اور ہم خیال سیاسی جماعتوں کو ہمنوا بنائیں اور عصری تقاضوں کا ادراک کریں تو اپنے مشن کی تکمیل بطریق احسن کر سکتے ہیں۔ عمران خان سے سیاسی اختلافات ممکن ہیں‘ان کی حکومتی کارگزاری اور وزیروں مشیروں کی دانش و بصیرت پر سوالات اُٹھ رہے ہیں مگر نبی آخر الزماںؐ کی حرمت و ناموس اور اسلام کا مقدمہ جس جرأت مندی سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر انہوں نے لڑا اس پر شک کی بظاہر گنجائش نظر نہیں آتی‘ تحریک لبیک ہی نہیں دیگر مذہبی جماعتیں بھی بظاہر تحریک انصاف کی فطری حلیف ہیں۔ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ تسلیم کرنا اگر موجودہ حکومت کے بس میں نہیں تو اس کی مجبوریوں اور سفارتی نزاکتوں کی پروا کئے بغیر بار بار احتجاجی مظاہروں اور پورے ملک کی بندش کے بل پر معاہدے پر من و عن اصرار اور رٹ آف سٹیٹ کو کمزور کرنے کی سوچ وہ غلطی ہے جس کی مرتکب ہر تنظیم بالآخر قصہ پارینہ بنی‘ سو تحریک لبیک کو اس حقیقت کا قبل از وقت ادراک نہ ہوا تو اب کم از کم غور و خوض کرنا چاہیے۔ مزید غلطی کی گنجائش نہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے واقعات سے یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ دونوں بار تحریک انصاف اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے معاہدے کی جُزیات پر غور کیا نہ ان سفارتی نزاکتوں اور ملکی معیشت و سیاست کے تقاضوں کو ذہن میں رکھا جو عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھیں‘ معاہدہ کرنے کے بعد حکومت کو یہ احساس ہوا کہ اگر سفیر کی ملک بدری کے لئے پارلیمنٹ سے رجوع کیا تو اپوزیشن کی جارحانہ تنقید کے علاوہ یورپی یونین اور مغرب میں مخالفانہ ردعمل و تضحیک کا سامنا کرنا پڑے گا‘ سو تاخیری حربے اختیار کئے گئے جس کا نتیجہ ناخوشگوار واقعات کی شکل میں برآمد ہوا ثابت یہ ہوا کہ اڑھائی سالہ حکمرانی کے باوجود اسلام آباد میں فیصلہ سازی کا عمل ناقص اور سینئر وزیروں مشیروں کی دور اندیشی سوالیہ نشان ہے‘ گورنر پنجاب چودھری سرور‘ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی ریسکیو نہ کرتے‘ ریاستی اداروں کی خوشدلانہ پشت پناہی حاصل نہ ہوتی تو اتوار کی شام بظاہر پنجاب اور وفاقی حکومت کے ہاتھ پلّے کچھ نہیں رہا تھا‘ ان معاملات کو اگر جہانگیر ترین کی نرم بغاوت سے ملا کر دیکھا اور پرکھا جائے تو نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے موجودہ حکمرانوں کے لئے سبق یہ ہے کہ ایک تو وہ ہر معاملے میں وقت گزاری کی غیر سنجیدہ سوچ سے چھٹکارا پائیں‘ معاہدہ شکنی کی تہمت سے بچیں اور قومی‘ سیاسی‘ مذہبی ایشوز طے کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو موزوں فورم سمجھیں۔ پیر اور منگل کے روز اس حساس موضوع پر قومی اسمبلی میں سنجیدہ بحث کے بجائے حکمران جماعت نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اختیارکیا‘ وزیر اعظم نے ایوان میں آنا گوارا کیا نہ ٹی وی پر قوم کے بجائے منتخب نمائندوں کے روبرو خطاب مناسب سمجھا۔ ویسے بھی یہ خطاب گھوڑے کے آگے تانگہ باندھنے کے مترادف تھا‘ پارلیمنٹ کسی بھی حکومت اور سیاسی جماعت کی اصل پناہ گاہ اور مرکز قوت و طاقت ہے مگر موجودہ حکمران میڈیا کی طرح پارلیمنٹ سے خائف نظر آتے ہیں‘ موجودہ بحران سے نکلنے کے بعد حکومت رٹ آف سٹیٹ کو یقینی بنانے کے لئے حتمی اقدامات کرے اور جلسے‘ جلوسوں‘ احتجاج‘ مظاہروں کے لئے ضابطہ اخلاق طے کیا جائے جس سے روگردانی کی اجازت کسی سیاسی جماعت کو ہو‘ نہ مذہبی تنظیم ‘لسانی اور نسلی گروہ۔ اسلامی ریاست میں عوام کے معتقدات کی اونر شپ لے کر ہی حکومت جتھوں اور گروہوں کی اجارہ داری سے نجات پا سکتی ہے۔ محض خالی خول نعرہ بازی اور لغو پروپیگنڈے سے نہیں۔