یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہفتہ نہیں جاتا کہ ہماری‘‘اپنی‘‘ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور دشمن ملک بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی’’را‘‘ کے سربراہ امر جیت سنگھ دُلت کی ہنگامہ خیز کتاب’’SPY CHRONICLES‘‘ کو کوئی بھی معمولی سا چیختا چلاتا واقعہ اور سانحہ چند گھنٹے کی بریکنگ نیوز میں اسی طرح کھاجائے گا کہ، کتاب کے نام اور مندرجات تو چھوڑیں خود ان دونوں صاحب کتاب کے نام بھی ذہن پر زور ڈالنے پر یاد آجائیں گے، ماضی کی بہت طول طویل تاریخ میں نہیں جاؤں گا اب یہی مرحوم ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغرخان کیس ہی دیکھ لیں آئی ایس آئی کے دبنگ007سابق سربراہ جنرل(ر) حمید گل نے بڑے دھڑلے سے یہ کارنامہ28سال قبل1990کے انتخابات میں انجام دیاتھا، ریاست کے تین بڑے ستون اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل اسد درانی نے انتہائی سطحی بلکہ بازاری حکمت عملی سے پیپلزپارٹی کو انتخابی شکست دینے کیلئے اس سازش کا تانا بُنا تھا، ریاست پاکستان کے ان تین بڑے ستونوں کو ذرا غور تو کیجئے کوئی اور نہیں بلکہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کا ایک بروکر دیوالیہ ہونے والے ایک بینک کا سربراہ یونس حبیب ہاتھ لگا جو ایک اور وڈیرے سیاستدان مرحوم جام صادق علی کا چیلا تھا، پاکستانی ریاست کے بڑے قیام پاکستان کے بعد سے’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کیلئے کیسی کیسی تباہ کن سازشیں کرتے رہے ہیں۔ ایئرمارشل اصغر خان کیس اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے، چار سال بعد یعنی1994میں ایئر مارشل(ر) اصغر خان کیس کا پینڈورا اس وقت کھلتا ہے جب بے نظیر بھٹو حکومت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ خان بابر قومی اسمبلی میں ایک کاغذ کا پرزہ لہراتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں جنرل نصیر اللہ خان بابر کا یہ انکشاف بذات خود بڑا مضحکہ خیز تھا کہ ان جیسے’’اندر‘‘ کے آدمی تک یہ خبر چار سال بعد پہنچی، اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ کہ ان کی جماعت کے خلاف سازش کرنے والوں میں سے ایک یعنی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی کوخود ان کی حکومت جرمنی میں سفیر کے عہدے پر فائز کرچکی تھی، خدا مرحوم جنرل نصیر اللہ خان بابر کے درجات بلند کرے کہ ان کی دوربین نگاہوں نے اس وقت اپنی وزارت کی ایک ایجنسی کے کیسے ہیرے کو دریافت کیا، جی ہاں میرا اشارہ محترم رحمان ملک کی جانب ہے جنہیں بعد میں اپنے’’باس‘‘ کی وزارت پر بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا، یہ رحمان ملک تھے جنہوں نے جرمنی جاکر محترم جنرل اسد درانی سے یہ حلف نامہ حاصل کیا کہ کس طرح انہوں نے صدرمملکت اور آرمی چیف کے حکم پر رقوم نامعلوم ہاتھوں سے حاصل کرکے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرائیں اور پھر بے نظیر مخالف اپوزیشن کے رہنماؤں میں اس مہارت سے تقسیم کیں کہ برسوں نہ لینے والے ہاتھ کا پتہ چلا نہ دینے والے کا۔ جنرل اسد درانی کے حلفیہ بیان کی بنیاد پر ایئر مارشل اصغر خان سپریم کورٹ گئے،14سال جی ہاں۔ چیونٹی سے بھی ہلکی رفتار سے یہ کیس عدالتوں میں رینگتا رہا۔2017ء میں جب چوہدری کورٹوں کا عروج تھا تو اس پر ایک فیصلہ جسے سنا ہے کہ بوڑھے ہوئے ریٹائرڈ ایئر مارشل نے اپنے ایبٹ آباد کے پر شکوہ بنگلے میں اپنے خاندان کے ساتھ سیلبریٹ کیا۔ پاکستانی سیاست کا یہ شریف آدمی اپنی زندگی کے آخری دنوں تک اس انتظار میں رہا کہ اس سازش کے زندہ کردار کب اپنے انجام کو پہنچیں گے، اس وقت جو ایک بار پھر مرحوم ایئر مارشل کے کیس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے تو اس کا سبب’’شریف خاندان‘‘ پر مزید ایک اور درّہ لگانے سے زیادہ نہیں، پاکستان کی پرائم انٹیلی جنس جس نے بلاشبہ وطن عزیز کے خلاف ہونے والی دشمنوں کی سینکڑوں نہیں ہزاروں سازشوں کو ناکام بنایا، اگر اس ناسور کو (میری مراد ایئر مارشل کیس میں ملوث مردہ زندہ کرداروں سے ہے) اپنے ہی نشست سے کاٹ پھینک دیتیں تو بعد کے برسوں میں اس ایجنسی کو اپنے اپنے مذموم مفادات اور مقاصد کیلئے استعمال کرنے والے اتنی دیدہ دلیری سے دندناتے نہ پھرتے۔ جس کی ایک حالیہ مثال ہمارے ریٹائرڈ جنرل اسد درانی ہیں، جنہیں اتنی جھجک بلکہ شرم بھی نہ تھی کہ جو 75ہزار کشمیریوں کو خون میں نہلانے والی فوج کی بدنام زمانہ ایجنسی کے سربراہ کے ساتھ بیٹھ کر ان رازوں کوشیئر کرتے کہ جو اگر کوئی صحافی، سیاستدان اور دانشور کرتا تو غداری کے تمغے ہی سے نہیں نوازاجاتا بلکہ جسے سرعام پھانسی کے تختے پر چڑھانے کیلئے’’ جبہ قبہ‘‘ پہنے ٹولیوں کی ٹولیاں پریس کلبوں کے باہر مطاہرے کررہی ہوتیں۔ مگر اس ایک کتاب پر ہی کیا منحصر ہے، ایک نہیں درجنوں کتابیں ہماری اس قومی پرائم انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بڑوں نے گھوسٹ رائٹر کی حیثیت سے لکھیں۔ اور ان سب میں ہر ایک کا یہ دعویٰ رہا کہ اگر تاریخ کے اس موڑ پر وہ یہ قدم نہیں اٹھاتے تو خاکم بدہن وطن عزیز ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا اس وقت مجھے اسی کی دہائی میں لکھی دو کتابیں یاد آرہی ہیں ایک آئی ایس آئی کے سابق جنر ل اختر عبدالرحمن کی اور دوسری بریگیڈیئر محمد یوسف۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی کتاب ’’فاتح‘‘ نے تو اشاعت کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے کہ یہ صاحب طرز کالم نویس ہارون رشید کے قلم سے رقم کی گئی، دونوں کتابوں میں دعویٰ کیاگیا کہ یہ آئی ایس آئی بلکہ ان کاعظیم الشان کارنامہ تھا جس کے سبب’’کابل‘‘ فتح ہوا اور سوویت ریاست کا شیرازہ بکھرگیا، کالم آخری دموں پر ہے، مگر آئندہ چل کر ذرا سرسری سا جائزہ ان کا ضرور لوں گا کہ ان دونوں سابق جنرلوں نے ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ یعنی ایجنسی کے اندر ایجنسی کو کس طرح استعمال کیا…؟ یہاں مجھے نوے کی دہائی میں بریگیڈیئر(ر) سید احمد ارشاد ترمذی کی میز پر دھری کتاب بھی دعوت دے رہی ہے کہ ذرا اس کے بھی ایک دو اوراق الٹوں محترم بریگیڈیئر صاحب سابق چیف آف اسٹاف ڈائرکٹریٹ جنرل آئی ایس آئی تھے محترم بریگیڈیئر ارشاد ترمذی آئی ایس آئی کے ایک سربراہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے پہلے کسی باوردی اہلکار کو کسی سماجی یا مذہبی تنظیم کا رکن بننے کی اجازت نہ تھی۔ یہ جنرل صاحب کی’’اسلام سے محبت‘‘ کا نتیجہ ہے کہ اب ایک حاضر سروس پیشہ ور فوجی بھی تبلیغی جماعت یا دوسری ایسی مذہبی جماعتوں کا رکن بن سکتا ہے۔ بہت سے ریٹائرڈ آرمی آفیسرز جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام اور اس نوع کی دیگر مذہبی جماعتوں کے رکن بن چکے ہیں۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق ڈائریکٹر کا تعلق بھی رائے ونڈ والی تبلیغی جماعت سے تھا اور یہ ان کا معمول تھا کہ وہ ہر جمعرات آئی ایس آئی کے جہاز پر اپنے چند تبلیغی دوستوں کے ہمراہ لاہور جاتے، جہاں سے آئی ایس آئی کی سرکاری گاڑیاں، انہیں رائے ونڈ لے جاتیں جو تبلیغی جماعت کا ہیڈ کوارٹر ہے، رائے ونڈ میں شب بسری کے بعد وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ واپس اسلام آباد آتے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس اعلیٰ پوزیشن کا فوجی افسر اگر رائے ونڈ یاترا کے لئے سرکاری ٹرانسپورٹ اور ذرائع کا استعمال کرسکتا ہے تو جماعت کے نام پر اس سے کسی بھی عمل کی توقع کی جاسکتی ہے۔ جہاں تین اسٹار والے جنرل کا یہ رویہ ہو وہاں دیگر باوردی افسروں اور ماتحتوں کو سپاہ صحابہ، تحریک جعفریہ، سپاہ محمد، حرکت الانصار اور دعوۃ الارشاد وغیرہ کا رکن بننے سے کون روک سکتاہے۔ کیا اس صورتحال میں دشمن کے لئے بعض جنونیوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ناممکن ہے۔ اب جہاں تک محترم اسد درانی اور امرجیت سنگھ دُلت کی مصنف ’’SPY CHRONICLES‘‘ کا تعلق ہے تو اس کا ذکر تو ذرا زیادہ تفصیل سے اگلے کالم میں ہی ہوگا۔ مگر مجھے ڈر ہے جس کا اعتراف ابتداء میں بھی کیا تھا کہ’’کوئی بڑی بریکنگ نیوز‘‘ نہ پکڑلے۔ مثلاً’’میرا جی کی کسی سی آئی اے ایجنٹ سے شادی کہ‘‘ اس کے بعد اس موضوع میں کہاں آپ کی دلچسپی۔