عابد شیر علی نے خوب کہی کہ اقتدار جاتے ہی سب درباری چھوڑ گئے۔اس میں حیرت والی بات کیا ہے جب دربار نہیں رہا تو درباری کیونکر رہیں گے۔ وہ تو صرف دربار کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں اور خاص طور پر بادشاہ کی مدح سرائی ان کی زندگی ہوتی ہے۔ جب بادشاہ ہی جیل چلا گیا اور پھر دربار بھی اجڑ گیا تو درباریوں کا کام ختم ہو گیا تو وہ ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ویسے یہ درباریہوتے قابل رحم ہیں کہ ان کی نہ انا ہوتی ہے اور نہ عزت نفس۔ بیچارے بادشاہ کے اشارے پر ہی حرکت کرتے ہیں۔ بہرحال اب جب درباری اور درباری راگ سب کچھ ختم ہو چکا تو کانوں میں جو صاحب سلامت گونجتی ہے یقینا تکلیف دیتی ہے۔ سوال یہ کہ اب درباری کریں گے کیا۔ غلام محمد قاصر کا ایک شعر ذرا سی تبدیلی کے ساتھ: کروں گا کیا جو خوشامد میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا ویسے یہ درباری ہوتے بڑے فنکار ہیں وہ اپنے ممدوح کو آسمان پر اٹھائے رکھتے ہیں‘ زمین پر پائوں رکھنے ہی نہیں دیتے۔ اپنی آنکھیں اس کی راہ پر بچھاتے ہیں وہ کمال ہنر مندی سے بادشاہ کو خوشامد کا اس قدر عادی بنا لیتے ہیں کہ وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ اگر آپ ذرا غور کریں تو درباری بڑے مجبور ہوتے ہیں اور ہر دم منافقت کا لبادہ اوڑھے بادشاہ کو خوش کر رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بادشاہ بھی سب کچھ سمجھ رہا ہوتا ہے۔ ایک درجے پر وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اور کچھ کچھ منافقت بھی کر رہا ہوتا ہے۔ لکھتے لکھتے مجھے اچانک یاد آیا کہ میاں صاحب کے پچھلے دور میں وہ درباری کتنا دلچسپ تھا جس نے کہا’’میاں جی کڑا کے کڈھ دوو‘‘ پھر میاں جی کے اپنے کڑاکے نکل گئے۔ وہ درباری نئے دربار میں جا پہنچا اور اس سے بھی زیادہ مزیدار بات یہ کہ میاں صاحب نے ایک مرتبہ پھر اسی درباری کو پھر بلا لیا اور وہ نہایت بے شرمی سے آ بھی گیا۔ اس سے بھی آگے ڈھٹائی کی انتہا کہ جنہیں وہ چھوڑ کر یعنی غداری کر کے آ گیا ان کی امداد لینے کے لیے پھر پہنچ گیا۔ واقعتاً خوشامدی اور درباری کی آنکھ میں حیا نہیں ہوتی، اس لیے وفا نہیں ہوتی۔ اب شیر علی درباری ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔ سنتے تو یہی ہیں کہ عمران خاں دربار نہیں لگائے گا مگر درباری بھی بڑے فنکار ہوتے ہیں، وہ دربار کارنگ بدل دیں گے۔ کام وہی چلے گا۔ درباری اپنا راستہ ایسے ہی بناتے ہیں جیسے پانی زمین سے۔میں نے شہاب نامہ پڑھا تو ایک بات ذہن میں رہ گئی کہ جب ایوب خاں قابض ہوا تو شہاب صاحب نے اسے کہا کہ انہوں نے سب کے ساتھ کام کیا ہے اور وہ تھک چکے ہیں لیکن ایوب خاں کے ساتھ کام کرنے کا باعث ایوب کی ایک خوبی ہے۔ ایوب خان نے حیران ہو کر پوچھا کہ وہ کون سی خوبی ہے جس سے شہاب صاحب جیسا عبقری دانشور متاثر ہوا ہے۔ شہاب صاحب نے کہا کہ آپ میں وہ خوبی یہ ہے کہ آپ خوشامد کو پسند نہیں کرتے۔ ایوب خاں سرشار ہو گیا اور خوش ہو کر کہا ہاں تم ہی میرے ساتھ رہو گے۔ اس کے بعد شہاب صاحب نے بھی خوب دربار لگایا۔ انہوں نے جگہ بنائی اور ان کے اپنے دربار ہیں، کیسے کیسے ادیب‘ دانشور اور شاعر تھے۔ اس کے بعد کیسا کیسا درباری اادب تخلیق ہوا ضیاء الحق کے دور میں بھی انہی کی آل اولاد چلی۔ تو جنرل ضیاء الحق نے اختر حسین جعفری کی نظم نوحہ کو منفی ادب قرار دیا تھا کہ وہ ایک حقیقی ردعمل تھا۔ اب بات عمران تک پہنچی ہے تو اسے دھیان رکھنا ہے کہ وہ جو کچھ کہتا آیا ہے اسے کیسے ڈلیور کرے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس کی ساری جنگ بادشاہت اور کرپشن کے خلاف تھی۔ یہ درست کہ اس نے اپنی پہلی تقریر میں تو اچھا تاثر قائم کیا ہے مگر عملی طور پر ابھی وہ زیرو پوائنٹ پر کھڑا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن پہ آپ تکیہ کرتے ہیں وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ اسے زبردستی بادشاہت کی طرف دھکیلا جائے گا۔ شیر بنایا جائے گا اور پھر کہا جائے گا اب شیر بنو۔ ایک مثال تو خان کو آنے سے پہلے ہی مل گئی کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی اسے وزیر اعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا۔ آپ لاکھ برہم ہوئے ہیں۔ پیش بندی آپ کو کرنا چاہیے تھی۔ اب کسی نے عدالت میں رٹ کی ہے تو یہ شرمندگی کا باعث ہے۔ نگران حکومت بھی جواب دہ ہے۔ یہ دوستی نہیں دشمنی ہے۔ یہ بھی درست کہ خاں پشاور میں بغیر پروٹوکول کے نیب کے دفتر گیا مگر پہلی غلطی اپنی جگہ موجود رہے گی۔ اب بھی ساغر کی بات مان لو: گر سکھا دیں گے بادشاہی کے ہم فقیروں سے دوستی کر لو ایک اور بات بہت اہم ہے کہ مخالفین کی پوری مشینری خان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے لگی ہوئی ہے۔ مثلاً یہ جو لکھا گیا کہ عمران خان نے سادگی کا لیکچر دیا اور اس تقریب کا بل 45لاکھ روپے ادا کیا گیا‘ سراسر جھوٹ ہے۔ جگر نے کہا تھا ’’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ‘‘ تو جناب اس وقت تو عمران خان فاتح نظر آ رہا ہے۔ اب اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کہیں غفلت برت کر ان دلوں سے اتر نہ جائے۔ اس کا مقابلہ بھی باقیات بادشاہت سے ہے۔ عوام اس کے پیچھے ہے۔ اسے یہ بھی ذہن میں رکھنا ہے کہ اس کے پاس بھی اکثر کھوٹے سکے ہیں۔ اسے چومکھی لڑائی لڑنی ہے۔ اپنوں کو بھی کرپشن سے روکنا ہے اور دوسروں سے حساب بھی لینا ہے۔ اس کے پاس موقع ہے کہ تاریخ کا روشن باب بن جائے اور بے لوث کردار۔ میں سمجھتا ہوں کہ عوام بھی اللہ کا انعام ہے پہلے حکمران اپنے کرتوتوں کے باعث بلیک میل ہوئے اور اپنے رویوں کے باعث سکیورٹی رسک بنے۔ وہ جو دیانتدار ہو‘ سادگی پسند ہو‘ قوم کا غمخوار ہو اور پرخلوص ہو وہ اسٹیبلشمنٹ کا دل بھی جیت لیتا ہے۔ میں پھر کہہ رہا ہوں کہ خان صاحب ہوشیار باش آپ کو بادشاہ بنانے کی بے حد کوشش کی جائے گی۔ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں کہیں آپ پھسل نہ جانا۔ اس کے لیے سب سے اہم کام جو کرنے کا ہے وہ تعلیم کا میدان ہے اگر یکساں نظام تعلیم آپ لے آئے تو تاریخ بدل جائے گی اور اگر سرکاری زبان اردو بن گئی تو آپ قائد کے بنائے ہوئے خاکے میں رنگ بھر دیں گے یقینا یہ کام مشکل ہے مگر کپتان نے کبھی ہار نہیں مانی: شاہ جی زور تے لگدا اے اپنا سکہ ڈھالن لئی