اخباری کارکنوں کو عید پر دو چھٹیاں ہوتی ہیں، ان دو چھٹیوں میں سارا شیڈول سمونا ہوتا ہے۔ عید کے روز تمام بہن بھائی کھانے پر جمع ہوئے۔ ٹرو کے روز امی، چھوٹے بھائی اوردادا دادی کی قبر پرفاتحہ کے لیے گیا۔ سہ پہر کو فیروز پور روڈ پر ماڈل ٹائون موڑ سے شروع ہو کر ایچ بلاک کے آخری کونے تک پھیلے اس پارک میں جا پہنچے جس کے اختتام پر سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے تایا، چچوں کے ایک قطار میں بنے گھر ہیں۔ ہمارے سکول کے زمانے میں یہ پارک نہیں ہوتا تھا۔ یہاں کھیت ہوا کرتے تھے جنہیں مسلم ٹائون کے قریب لاہور نہر سے نکلنے والا ایک بڑا کھال سیراب کیا کرتا۔ ہائی سکول میں تھے جب اس جگہ پارک بنا دیا گیا۔ ماڈل ٹائون موڑ کے پاس آموں کا قدیم باغ تھا جس کے پندرہ بیس درخت اب بھی کھڑے ہیں، اعلیٰ ظرف انسانوں کی طرح کشادہ سنبل کے کچھ درخت ہیں، طیوکے گھنے اور بلند قامت درختوں کا گوشہ ہے، ان پر لگا پھل جب پیلا ہو جائے تو اس کا اچار ڈالا جاتا ہے۔ کچھ شیشم اور جامن کے اونچے اونچے درخت ہیں۔ یہ بلند اور قدیم درختوں کا گوشہ ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کے گھر کے بالکل سامنے ہے۔ بی اے کے امتحانات سر پر تھے۔ گھر دو کمروں پر مشتمل تھا۔ اباجی کی سائیکل اٹھاتا کتابیں رکھتا اور یہاں آ جاتا۔ اس وقت نہ فیروز پور روڈ اتنی کھلی تھی نہ ماڈل ٹائون موڑ اتنا کشادہ تھا۔ میں یہاں آ جاتا۔ مہاتما بدھ کی طرح ان درختوں کے درمیان لکڑی کی گنبد نما چھت والے تھڑے پر جا بیٹھتا۔ ہم نے رہائش تبدیل کرلی۔ ملازمت شروع ہوئی تو روزنامہ دن میں موقع ملا۔ اسی بلند درختوں والے گوشہ کے مشرقی طرف فیروز پور روڈ عبور کرتے ہی اخبار کا دفتر تھا۔ دن کی شفقت تھی۔ چھٹی کے بعد یہاں آ جاتا اور پارک کے اندر ہی اندر پیدل چل کر نوازشریف کے گھر کے قریب جا نکلتا۔ عید کے دوسرے روز مناہل اور بیگم کو لے کر کتنے ہی برسوں کے بعد یہاں آیا تو تمام درختوں کو اسی طرح کھڑے دیکھ کر دل اطمینان سے بھر گیا۔ دل چاہتا تھا کہ ان کے شناسا وجود سے لپٹ جائوں، مجھے لگا کچھ درخت اتنی مدت بعد آنے پر مصنوعی خفگی کا اظہار کر رہے تھے۔ میں ان سے شرمندہ تھا۔ چاہتا تھا ان کے تنے کے گرد پہلے کی طرح بانہیں ڈال دوں۔ پھر خیال آتا سینکڑوں لوگ یہاں موجود ہیں، مجھے پاگل سمجھیں گے۔ پھرمناہل تھی، جانے اس کا معصوم ذہن اپنے باپ کے بطون میں ابھرنے والی کیفیات کو کیسے دیکھے۔ میں نے ان درختوں کے ساتھ اپنی اور مناہل کی تصویریں بنائیں۔ برادرم رئوف کلاسرہ سے میں نے کہا تھا کہ بچوں کو درخت دوستی سکھانی چاہیے۔ میں نے اپنے بچپن کے دوست ان درختوں سے اپنی بیٹی کو ملوایا۔ ان کے نام بتائے، اسے بتایا کہ فوارے والے تالاب میں کبھی دو دو کلو کی مچھلیاں ہوا کرتی تھیں، اب وہاں بالشت بھر کے ڈولے تیر رہے تھے۔ لوگ درختوں کی شناخت ان کے تنوں سے کرتے ہیں، میں شاخوں کو بھی نظر میں رکھتا ہوں۔ شاخیں لچکیلی ہوتی ہیں، خمدار ہوتی ہیں، کئی بار مضبوط ٹہنے ایسی شکل بن جاتے ہیں جیسے کوئی ڈرائونا جادوگر ہو، کئی بار ان شاخوں میں سے کوئی مہربان پری رقص کرتی نظر آتی ہے، کبھی وہاں بال کھولے ایک بڑھیا نظر آتی ہے۔ کبھی اعضا کی شاعری اپنے بدن کا ہر زاویہ دکھاتی معلوم ہوتی ہے۔ تنے، شاخیں، پتے اور پھل مل کر درخت کی شخصیت بناتے ہیں۔ اگر آپ ان سے پیار کریں تو یہ آپ سے گفتگو کرتے ہیں۔بھاری دل کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوا تو وہی کیفیت تھی جو صبح امی کی قبر سے رخصت ہوتے وقت تھی۔ عید سے دو دن پہلے کی بات ہے جب تین بچیاں گرم اور گرد آلود طوفان کی زد میں آ کر راستہ بھٹک گئیں۔ ایک سو پندرہ کلومیٹر فی گھنٹہ چلنے والے طوفانی تھپیڑوں نے ان ننھی لڑکیوںکو پہلے زمین سے اٹھایا، پٹخا، پھر اٹھایا، پھر پٹخا، گرمی نے حلق خشک کردیئے تھے۔ آواز تو نکلی ہی نہ ہوگی۔ چھوٹے چھوٹے دل تو خوف سے ہی بند ہو گئے ہوں گے۔ گھر کا رستہ بھٹک چکی تھیں، بے رحم طوفان ان کا قصور معاف کرنے کو تیار نہ تھا۔ دو دن تک لوگوں نے تلاش کیا۔ آخر ایک جگہ ریت میں آدھی دفن تین چھوٹی چھوٹی لاشیں مل گئیں۔ تصویریں سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ کوئی بیٹی کا باپ تو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔ خیال آتا ہے کہ پولیس اور ریسکیو نے بچیوں کے خاندان والوں کی مدد نہ کی لیکن ہم دوسرے بچوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ پانچ سال ہوئے گھر کے قریب بس سٹاپ پر میں نے گومی نسل کی دھریکیں لگا دیں۔ یہ گھنی اور چھتری نما بن جاتی ہیں۔ پانچ دھریکیں اب بڑے درخت بن چکی ہیں۔ ایک بار گلبرگ کے ایک بزرگ تاجر شیخ یعقوب مجھے ڈھونڈتے آ گئے۔ میں نے مانگا رائے ونڈ روڈ پر ان کی دو مربع اراضی پر شجرکاری کا منصوبہ بنا کر دیا۔ کئی برس گزرے سینئر کالم نگار جناب حسن نثار سے گزارش کی تھی۔ انہوں نے حسب روایت ایک زبردست کالم لکھا۔ بارہ سال قبل لاہور پریس کلب ہائوسنگ سوسائٹی کا تعمیراتی کام شروع ہوا۔ میں نے اس وقت کی باڈی سے کہا کہ نیم، بیری، ارجن اور سکھ چین کے درخت ضرور لگائیں۔ اب یہ تناور درخت بن چکے ہیں۔ بھائی جان نے ایک کھلی سوسائٹی میں گھر بنایا تو مجھے بلایا میں نے اپنے ہاتھوں سے موتیا، لیموں، چیکو، کھجور اور دھریکوں کے پودے لگائے۔ اگلے دو سال میں یہ پودے جوان ہو جائیں گے۔ درخت زمین کا زیور ہیں، یہ زمین کے محافظ ہیں، یہ زمین کی زندگی ہیں۔ چار سال قبل گھر کے قریب پیکو روڈ سے کالج روڈ تک مادر ملت روڈ بنی۔ پچھلے دس پندرہ سال سے لاہور میں درآمدی پودے لگانے کے خلاف میں نے مہم شروع کر رکھی ہے۔ سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کا ایک بھائی پی ایچ اے کا کنسلٹنٹ رہا ہے، اس کا اپنا بھی نرسری فارم ہے جہاں سے سرکاری اداروں کو پودے فروخت ہوتے ہیں۔ میں نے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کو درخواست دی کہ لاہور میں مقامی درخت لگائیں۔ درآمدی پودے نہ لگائے جائیں۔ اللہ کا شکر ہے مادر ملت روڈ پر بھی مقامی درختوںکی خاصی تعداد لگ گئی۔ اندازہ ہے کہ لاہور کے نواح میں شجر کاری نہ ہوئی تو اگلے ڈیڑھ سو سال بعد یہ شہر صحرا بن جائے گا۔ میری بیٹی نے یہاں رہنا ہے، میری آنے والی نسلیں جب میری قبر کو تلاش کریں تو انہیں وہاں آم، جامن، سنبل، طیو اور شیشم کے کشادہ ظرف اور گھنے درختوں کے قریب میرا نشان مل جائے۔ اس لیے میں اس شہر کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ ریت کے بگولے یہاں کی بچیوں کو ماں باپ سے جدا کرکے ریت میں دفن کردیں۔