الحمداللہ!عمر کا غالب حصہ آسودگی کی حالت میں گزرا ہے‘ تاہم کون ہے کہ جس کی زندگی تکلیفوں سے بالکل ہی خالی ہو مگر آپ یقین کیجئے‘ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ درد میں اس قدر شدت بھی ہوسکتی ہے!! سیانوں نے کہا ہے کہ انسان، روح اور جسم کا مرکب ہے۔ ہوتا ہوگا جی مگر اُس وقت اذیت جس حد کو چھوگئی تھی‘ دل کرتا تھا کہ یہ دونوں الگ الگ ہوجائیں، کسی ایک کوتو سکون میسر ہو ۔ یہ نہیں کہ زندگی میں کبھی کسی تکلیف کا شکار نہیں ہوا۔ کئی مواقع روحانی، جسمانی تکلیف کے ایسے گزرے ہیں کہ ان کا خیال آتا ہے تو ناسٹلجیا کا مریض ہونے کے باوصف میں اُن بیتے دنوں میں واپس نہیں جانا چاہتا۔ مثلاً جب میں کالج میں گریجوایشن کے آخری سال کاطالب علم تھا تو ایک شب سونے کے کوئی گھنٹہ بھر بعد پیٹ کے درد سے آنکھ کھل گئی تھی۔ توبہ! کیا رات تھی وہ۔ کبھی چورن چاٹتا، کبھی سیون اپ پیتا۔ خیال یہ تھا کہ رات کے کھانے میں جو چنے کی دال کھائی ہے‘ اس نے درد کردیا ۔ دوسروں کوتنگ کرنے کی عادت نہیں۔ سب سوتے تھے اور میں آنگن میں بے چینی کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے ٹہلتا تھا۔ اینٹھن جان نکالے دیتی تھی اور کسی طور قرار نہ پڑتا تھا۔ سویر کی نماز کو سب جاگے تو میں نے بتایا ۔ فوری نشتر ہسپتال کی ایمرجنسی لے جایا گیا۔ پتہ چلا کہ یہ تو اپنڈکس کا درد ہے۔ دردکُش ٹیکے لگائے گئے تو جان میں جان آئی اور گھنٹے بھر بعد آپریشن۔ پھر وہ دن کہ یونیورسٹی کا پہلا سال جب ختم ہونے کو تھا اور فارمیسی والوں سے ہماری لڑائی ہوگئی تھی۔ قدیم عرب قبائل جیسی طویل لڑائی تھی جو دن بھر چلی۔ صبح فارمیسی والوںنے مجھے گھیرکے دھمکیاں دیں۔ ڈیپارٹمنٹ آکر میں نے دوستوں سے ذکر کیا تو ایم بی اے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے ہم نے انہیں گھیرنے کی کوشش کی مگر وہ فرار میں کامیاب ہوگئے۔ مبین نام کا وہ لڑکا ساہیوال سے تھا۔ پتہ نہیں اب کہاں ہوگا، خود کو بینا برسٹ کہا کرتا تھا۔بہرحال ابوبکر ہال کی کینٹین پر گھمسان کا رَن پڑا اوربینا اپنا برسٹ نہ مارسکااور اس کی خاصی پٹائی ہوئی۔ یہ ’’معرکہ‘‘ مارنے کے بعد ہم بے وقوف بجائے وہاں سے غائب ہونے کے عمر ہال کی کینٹین پر جا بیٹھے۔ آدھے پونے گھنٹے میں کمر کے پیچھے ڈنڈے چھپائے اٹھارہ بیس لڑکے ابوبکر ہال کی دیوار کے پیچھے سے نمودار ہوئے اور ہماری جانب جو بڑھے تو ہمارے سب ساتھیوں نے راہِ فرار اختیار کی۔ شکیل انجم اور میں رہ گئے۔ مجھے تو اس خیال نے بھاگنے نہ دیا کہ ساری لڑائی میری وجہ سے برپا ہوئی ہے ۔ شکیل ایک تو دلیر بندہ ہے اور پھر اُس روز چھٹی پر تھا، میری لڑائی کا سن کر یونیورسٹی آیا۔ وہ مجھے چھوڑ کر کیونکر جاتا۔ یہ کوئی سائوتھ انڈین فلم کا سین تو تھا نہیں چناں چہ پندرہ سولہ لوگوں کے ہاتھ دو لوگ آجائیں تو جو ہونا چاہئے‘ وہی ہوا۔ یاد کر کے ہنسی آتی ہے مگر تب یہ عالم تھا کہ نہ کسی کروٹ لیٹ سکتا تھا، نہ ٹھیک سے بیٹھ سکتا ۔ ڈر کے مارے گھر بھی کسی کو نہ بتایا تھا۔ آپ اندازہ کیجئے کہ پور پور دُکھ رہی ہو اور بالکل ٹھیک ہونے کی اداکاری کرنی ہو ۔ شکر ہے چوٹیں سب اندرونی تھیں، چہرہ، ہاتھ وغیرہ ٹھیک تھے۔ بہرحال، وہ دردیں بھی نہیں بھولتیں۔ اب تازہ سن لیجئے جو مجھے لگتا ہے، ان سب سے بڑھ کر ہے۔ بائیں جانب کی ایک داڑھ کی حساسیت مجھے دائیں جانب سے کھانا کھلاتی ہے ۔ گزری جمعرات کو ایک دفتری میٹنگ کے لئے لاہور میں تھا، وہاں جو دوپہر کا کھانا کھایا تو ایک لقمہ بائیں چبانے کی غلطی کربیٹھا۔ داڑھ لگتا ہے انتظار میں تھی۔ درد جو اٹھا ہے توبس ۔ گھنٹے بھر کے وقفے سے دو پین کلرز کھائیں تو ملتان کے سفر کے قابل ہوا ۔ تاہم اصل اذیت تو جمعہ کی منتظر تھی۔ بچوں کو سکول سے جو لے کر آیا ہوں تو اسی داڑھ میں درد شروع ہوا۔کوئی پین کلر اثر نہ کرے اور درد ایسا کہ بایدوشاید۔ بائیں جانب سے پورا چہرہ ہی جیسے پھوڑا بن گیا ۔ کن پٹی تو لگتا تھا پھٹ جائے گی۔ بیگم نے دوپٹہ کس کر باندھا۔ کبھی لیٹتا تھا ، کبھی اٹھ کر بیٹھتا اور پھر ٹہلنے لگتا۔ اتنی اذیت پہلے کب دیکھی تھی بھلا۔ اپنے ڈینٹیسٹ کو فون کیا تو انہوں نے ایک انجکشن بتایا۔ اب عین جمعہ کا ٹائم، کوئی بندہ نہ ملے ٹیکہ لگانے کو۔ خدا بھلا کرے فیاض اعوان کا، وہ آئے اور انجکشن لگایا۔ پندرہ بیس منٹ گزرگئے کوئی فرق نہیں۔ پھر ایک ڈاکٹر سے پوچھ کر دو پین کلرز منگوائیں۔ ایک کو پانی میں گھولا اور اس پانی سے دوسری کھائی۔ درد کی شدت بڑھتی رہی اور دورانیہ طویل ہوتا گیا تو میری آنکھوں میں بے بسی کا پانی بھر آیا۔ ڈرائنگ روم کے سامنے جو سیڑھیاں اوپر کی منزل کو جاتی ہیں، اُن سے سر ٹکاکر میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ آنکھیں بھیگ کر چھلک پڑیں۔ گردو پیش گھومتے محسوس ہوئے گویا انہیں چکر چڑھ گئے ہوں۔ میرے لب ہلنے لگے’’ یااللہ! اتنا بھی درد ہوتا ہے کیا؟؟؟تیرا کہنا ہے کہ کسی بندے کو اس کی برداشت سے بڑھ کر تکلیف نہیں ۔ یااللہ! میری برداشت ختم ہوگئی ہے‘‘۔آخری جملہ بار بار دہرایا ۔ پتہ نہیں کتنے زمانے گزرگئے اسی عالم میں۔ میں شائد سیڑھیوں سے سر ٹکائے کھڑا کھڑا سوگیا تھا۔ ہوش بحال ہوئے تو درد تھم چکا تھا۔ دھیرے دھیرے سر اٹھایا اور دائیں بائیں دیکھا تو میری بیٹیاں اور بیگم متورم آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ جب کوئی پیارا تکلیف میں ہو اور آپ کچھ نہ کرسکیں تو آنکھیں ہی سارا درد جھیلتی ہیں۔ شام کو پون گھنٹے سے زائد کی سرجری ہوئی۔ زخم ٹھیک ہونے میں ڈاکٹر نے کہا دو ہفتے لگیں گے۔ دن میں دو تین دورے درد کے ابھی بھی پڑتے ہیں۔ اللہ خیر کرے مگر میں سوچتا ہوں کہ واقعی وہ کسی کو برداشت سے بڑھ کے تکلیف نہیں دیتا۔ ہمیں برداشت کی حد کا خود پتہ نہیں ہوتا۔ ایسے حالات پیمانے کا کام کرتے ہیں۔ ہر شخص کو برداشت سے بڑھ کر ایک ہی دفعہ تکلیف ہوتی ہے اور وہ تکلیف حصارِ جسم توڑکر جاں کو ساتھ لے جایا کرتی ہے۔ اس وقوعے کو ہم موت کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔