ہماری قومی سیاست پر یہ مقولہ خوب صادق آتا ہے کہ یہ وہ جامہ نہیں جس کا ہے الٹ سیدھا۔ مطلب یہ کہ ہماری سیاست کے جامے کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو تو بجائے سیدھا ہونے کے یہ اور الجھ جاتا ہے۔ اسے کہیں سے بھی پکڑنا چاہو تو پکڑائی بھی نہیں دیتا۔ ایک عجب قسم کی ہاہا کار ہے جس کی ہر طرف پکار ہے۔ معاملات سلجھ بھی رہے ہیں اور الجھ بھی رہے ہیں اس کے الجھائو پر غور کرو تو یہ سمجھنا مشکل کہ جو کچھ سلجھ رہا ہے وہ کتنی دیر کے لئے؟اور جو الجھ رہا ہے اس کے الجھائو کے قیام کی مدت میں کس قدر ہے۔ بقول منیر نیازی: ہوش اڑتا جا رہا ہے گرمی رفتار سے دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں کراچی میں ایک اینکر کا قتل ہوا‘ اس کے جو ہوش ربا واقعات اور حقائق سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ اصل سبب قتل کا ہوس زرتھا۔ لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں بنانے اور کمانے کا پھیر تھا۔ پھر لندن سے ایک خبر آئی کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب جو عاشق حبیب جالب تھے۔ زلزلہ زدگان کی امداد کھا گئے۔ الزام کی بازگشت تواتر سے گونجتی رہی تو فرمایا کہ زلزلہ زدگان کی امداد کھانے کو میں مردار کھانے کے برابر سمجھتا ہوں۔ پچھلے کالم میں یہی عرض کیا تھا کہ لفظوں کا وقار و اعتبار جاتا رہا ہے۔ اس درجہ کہ سچ اور جھوٹ کا اتا پتا نہیں ملتا۔ کون سچا اور کون جھوٹا۔ کس الزام میں صداقت ہے اور کون سا الزام کذب بیانی کے ذیل میں آتا ہے؟ کسے مانیں اور کسے نہ مانیں۔ دیکھنے‘ سننے اور بھولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔اکیسویں صدی کرنسی یعنی پونڈ‘ ڈالر اور روپے پیسے کی صدی ہے۔ جدھر دیکھو دولت ہی کی پوجا پاٹ ہے۔ دولت ضروری نہیں‘ بہت زیادہ ضروری ہے۔ ناگزیر ہے کہ اب سارے مسئلے مسائل دولت ہی سے حل ہوتے ہیں۔ عزو شرف اب تقویٰ‘ نیکو کاری اور ایثار و عفو ودرگزر کی خوبیوں سے نہیں کار‘ کوٹھی ‘ بینک بیلنس اور سوشل اسٹیٹس ہی کے دم قدم سے ہے اور ان کی اب کوئی انتہا نہیں۔ سونے کا ایک پہاڑ بھی مل جائے تو ایسے ہی ایک اور پہاڑ کی تمنا آدمی کے اندر آنکھ کھول لیتی ہے۔ہزاروں خواہش پوری ہو جائیں تو اندر سے ایسی ہی اور خواہشیں پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے گیان دھیان کرنے والوں نے کہہ رکھا ہے کہ سارے دکھوں اذیتوں اور محرومیوں کی جڑ بنیاد خواہشیں ہیں۔ سکون اور شانتی چاہتے ہو تو خواہشوں کو روک لو۔ ضروریات بھر خواہشوں کو پورا کرنے میں مضائقہ نہیں۔ لیکن عیش و عشرت اور امارات و تنعم کی لالچ میں پڑو گے تو اس کی کوئی انتہا نہیں، آدم خاکی کا پیٹ خاک ہی سے بھر سکتا ہے۔ ایک خواہش کے اندر سے دوسری اور دوسری سے تیسری خواہش پیدا ہوتی ہے اور پھر خواہشوں کی پیدائش کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے خواہشوں کی لگام کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور ایک حد پہ جا کے اسے کھینچ لینا ممکن ہی نہیں ہوتا جب تک آدمی کے اندر فنا اور موت کا احساس نہ رہے، کچھ نہیں ہے یہ دنیا یہ زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا۔ سارا ٹھاٹ پڑا رہ جاتا ہے جب بنجارہ لاد کے چل دیتا ہے۔ غفلت نسیان ہی کا نام ہے۔ بھول جانا اپنی حقیقت اور اس زندگی کی حقیقت کو۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ آگے پیچھے ‘ اوپر نیچے‘ دائیں اور بائیں ‘ ہر طرف دنیا ہی دنیا ہو۔ پس یہ دنیا پرستی ہے جس میں مبتلا ہو کر ساری اخلاقی قدریں ٹھکانے لگ جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ رشتے ناتے‘ محبت کا تعلق ہوس و لالچ کی قربان گاہ پہ مقتول ہو کر انسان کو احسن الخالقین سے گرا کر اسفل السافلین کی تہہ تک پہنچا دیتا ہے۔زندگی کا حسن اور اس کی جمالیات گہر بے سکون و عافیت کے احساس میں پوشید ہے۔ جب تک آنکھوں کو میٹھی نیند نصیب نہ ہو‘ دل اندیشوں اور وسوسوں سے خالی نہ ہو اور وجود انتشار و افراتفری سے ہر لمحہ ہر آن اتھل پتھل ہو رہا ہو تو اکائونٹ لبا لب بھرا ہو دولت سے تو بھی کیا۔ ایک رات کسی پوش علاقے سے گزرتے ہوئے کیا دیکھتا ہوں کہ فٹ پاتھ پہ ایک مفلس و نادار شخص ہاتھ کو سرہانہ بنائے کھلے آسمان تلے گہری نیند سو رہاہے تو دل یہ سوچ کر دکھی ہوا کہ اسی علاقے میں کتنے ہی بنگلے ہوں گے جس کے کمرے اور بستر خالی پڑے ہوں گے اور یہ کیسا بدنصیب شخص ہے جسے ایک بستر اور ایک تکیہ تک میسر نہیں۔ پھر ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ دولت کی تقسیم انسان کے بنائے ہوئے نظام کے تابع ہے لیکن پلکوں پہ جو نیند اترتی ہے وہ کسی نظام سے نہیں‘ محنت و مشقت اور قلبی سکون کی عطا ہے۔ کیا ایسی بے خبر اور پرسکون نیند کسی ارب پتی یا کھرب پتی کو میسر ہے۔ یا وہاں نیند آتی ہے خواب آور گولیوں سے۔ دولت کی طلب اور دولت سے محبت دل میں جگہ بنا لے تو کہاں کا سکون اور کیسی نیند۔ یہ بھی تو ہے کہ زندگی کی سنگلاخ حقیقتیں‘ نصیحتوں کو کب خاطر میں لاتی ہیں۔ آج بڑے شہروں کی زندگی کی جملہ ضرورتیں دولت اور خوشحالی ہی سے پوری ہوتی ہیں۔ کیا رہن سہن اور کیا بیماری دکھی‘ کیا اولادوں کی تعلیم اور ان کا کیریر‘ کیا سامان عیش و عشرت ہر ضرورت اور ہر تقاضا سرمایہ مانگتا ہے۔ ہر قیمت پر اس میں جائز و ناجائز‘ حرام و حلال کی تمیز بھی مٹ جاتی ہے۔بعد میں جو بے سکونی مقدر بنتی ہے۔ آدمی کسی نہ کسی طور پر اسے بھی جھیل جاتا ہے۔ کوئی حل نہیں ان سارے عوارض کا‘ اس کے سوا کہ ایک عادلانہ نظام رائج کیا جائے ایک ایسا عادلانہ نظام ہر چیز کو جس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا جائے۔ جن کے پاس کچھ نہیں انہیں کچھ نہ کچھ دیا جائے اور چین کے پاس سب کچھ ہے انہیں پابند کیا جائے کہ یہ ’’کچھ نہ کچھ‘‘ وہ اپنے پلے سے انہیں دیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں۔ خواہ ٹیکسوں کی صورت میں یا خیرات و صدقات کی شکل میں حکومت اور امراء و رئوسا کا طبقہ جب تک درد مندی اور انسان دوستی کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ اذیتیں پریشانیاں اور مصائب معاشرے کے کم نہ ہوں گے۔ اور یہ سمجھانا بجھانا مولانا طارق جمیل جیسے ناصح مشفق کا کام ہے۔ پورا معاشرہ بگاڑ کی جس منزل تک پہنچ چکا ہے‘ اس سے زیادہ بگاڑ ممکن بھی نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم دوسروں کے بجائے اپنے اندر جھانکیں‘ خود کو ٹٹولیں دوسرے ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے۔ جب تک ہم خود ٹھیک نہ ہو جائیں۔