"غارحرأ" ۔۔۔ طلب وجستجو کی غار،" جبل نور" ۔۔۔ روشنی اور رحمت کا پہاڑ۔ مکہ معظمہ میں، بجانب شمال مشرق، تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر ، یہ خشک اور بے آب و گیاہ پہاڑ، جس کا راستہ کٹھن اور دشوار---کہ صحتمند اور طاقتور آدمی بھی ذراہمت ہی سے پہنچ پاتا، جہاں اظہارِ نبوت سے قبل، خلوت گزیں ہو کر ، حضور ﷺ، اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے،پتھر کی بڑی سِلوں سے بنے، اس غار کی لمبائی بارہ فٹ جبکہ چوڑائی اور اونچائی چھ فٹ ہے، اندر صرف ایک آدمی کے نماز پڑھنے ، بیٹھنے یا لیٹنے کی گنجائش ہے۔ حدیث شریف میں غارِ حرأ کی اس خلوت گزینی کے لیے" تَحَنُّث"کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی۔۔۔ اپنا وقت یادِ الٰہی میں صَرف کرنے کے ہیں، نبی اکرم ﷺ کے، یہاں پرقیام کی مدّت کبھی تین رات، کبھی سات اور نوراتیں اور بالخصوص رمضان کا پورا مہینہ بیان ہوئی ہے۔رمضان کے بارے میں علامہ سہیلی نے’’الروض الاُنف‘‘،جو سیرۃ ابن ہشام کی معتبر شرح ہے میںلکھا ہے کہ آپ ﷺ ہر سال اس مہینے کو خلوت گزینی کے لیے بطورِ خاص پسند فرماتے ، یہاں مساکین کے لیے کھانے کا اہتمام کرتے ، اختتام ماہ پر ،گھر تشریف لانے سے قبل بیت اللہ شریف کا طواف فرماتے ۔ بلاذری نے انساب الاشراف میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، کہ قریش کی بعض دیگر شخصیات بھی "تَعَبُّد و تَحَنُّث"کی خاطر اس غارِ حرا میں مشغول رہتیں۔ لوگوں کی خاطر ومدارت کا اہتمام ہوتا، شوال کا چاند طلوع ہونے پریہ لوگ "غارِحرأ "سے نیچے اُترتے۔ اگرچہ مکے کے اردگرد، دیگر کئی پہاڑ بھی تھے اور ان میں بھی ایسے گوشہ عزلت کو تلاش کیا جا سکتا تھا، لیکن غارِ حرأ ہی کے انتخاب کا سبب یہ تھا کہ حضور ﷺ کے اجداد ، بطورِ خاص، حضرت عبدالمطلب اور پردادا حضرت ہاشم بھی عبادت و ریاضت اور مراقبہ ومجاہدہ کے لیے وہاں جایا کرتے تھے، ابن حزم نے جَمہرۃُ اَنْسابِ الْعرب میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا غارِ حرأ میں تشریف لے جانا، ارادہ الٰہی کے تحت تھا۔سیرت نگاروں نے ایک سبب یہ بھی قرار دیا ہے کہ غارِ حرأ میں، دورانِ عبادت خانہ کعبہ سامنے نظر آتا تھا، جس کو دیکھنا نبی اکرم ﷺ کو ازحد محبوب اور مرغوب تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضورﷺ چند روز کے خورد ونوش کا سامان ، جس میں پانی اور سَتو، بطورِ خاص شامل تھے، لے کر غارِ حرا تشریف لے جاتے، جب یہ سامان ختم ہو جاتا تو پھراُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پاس آتے، چند روزان کے پاس قیام فرماتے، کچھ زادِ راہ لے کر، اپنے رب کو یاد کرنے، دوبارہ یہاںتشریف فرما ہوجاتے۔ بعثت کا زمانہ جس قدر قریب ہوتا گیا، تخلیہ، عبادت و ریاضت اور "Meditation" میں انہماک بھی اسی قدر بڑھتا گیا۔سیرت ابن ہشام کی یہ بات بڑی محبت آفریں لگی کہ "رسول اللہ ﷺ جب غارِ حرأ کی جانب جاتے تو بالعموم سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ بھی ساتھ ہوتیں اور بعض اوقات غارِ حرأ میں شریک عبادت بھی رہتیں، اور بعض سیرت نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ رمضان المبارک کا چاند نظر آنے پر حضورﷺ جب غارِ حرا کی طرف روانہ ہوتے تو آپ کے اہل خانہ بھی ہمراہ ہو جاتے ، یقینا یہ آسودگی کا دور تھا ، حضرت خدیجہؓ اپنے بچوں اور خدام کے ساتھ ---پہاڑ کے دامن میں ،کھلے آسمان کے نیچے خیمہ زن ہوجاتیں ، جبکہ آنجناب ﷺ جبلِ نور کی بلندی پر چڑھ کر ’’غارِ حرا‘‘ کے تنہا ئیوں اور پنہائیوں میں ،اپنے رب کی یاد میں کھو جاتے ۔حرأ کے صرف اس قیام اور خلوت گزینی ہی سے اگر آ پ ، حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی حضور ﷺکے ساتھ وابستگی اور محبت آمیز تعلق کی خوشبو حاصل کرنا چاہیں توکئی پہلو نمایاں ہو کر سامنے آئیں گے ،شرفِ نبوت سے مشرف ہونے والی بابرکت ساعتوں اور سعید لمحوں میں ،حضرت خدیجہؓ،یہاں ساتھ نہ تھی ، حضور ﷺ کو ، واپسی میں تاخیرہوئی، تو سیّدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کوبے چینی ہوئی ، اپنے اہلکار اور آدمی حضورﷺ کے لیے بھجوائے ،اسی اثنا میں حضور ﷺ تشریف فرما ہوگئے ، تو انہوں نے اپنے غمگسار اہلیہ اور مونس وہمدرد رفیقہ ٔ حیات کو بیقرار پایا اور پوچھااَ قَدْ خَشِیْتِ عَلَیَّّ کیا تمہیں میرے بارے میں کوئی اندیشہ لاحق ہوگیا تھا ،انہوں نے عرض کی :کَلَّا ---ہرگز مجھے کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہوا تھا ، چونکہ آپ ﷺ تو کمالات عالیہ سے متصف ہیں ، اور جو ہستی ایسے اوصافِ حمیدہ سے آراستہ ہو، اللہ خود ہی اس کا نگہبان ہوتاہے۔ سلمان منصور پوری کے مطابق اسی عالم میں وحی کا آغاز ہوا،41میلادی بمطابق12فروری610ھ، روح الامین جبرئیل علیہ السلام "امر نبوت" لے کر آئے اور وحی کا آغاز ہوا، جبکہ ابتدائے نزول قرآن، ماہِ رمضان میں ہوا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :"رسول اللہ ﷺ پر وحی کا آغاز سچی خوابوں سے ہوا، جو خواب حضور ﷺ رات کو دیکھتے، اس کی تعبیر دن کو، ہو بہو صبح کے اُجالے کی مانند سامنے آجاتی، پھر حضور ﷺ کے دل میں خلوت گزینی کی محبت پیدا ہوگئی، ۔۔۔۔"سچے خواب دکھانے میں حکمت یہ ہے کہ منصب نبوت پر جب کسی ہستی کو فائز کیا جاتا ہے تو ان حقائق کو اس پر آشکارا کیا جاتا ہے، جن کا تعلق عالمِ غیب سے ہوتا ہے۔ "غارِ حرأ"کا ذکر آتا ہے، تو "اِقرأ"جس کا ترجمہ "پڑھیے"کیا گیا ہے، کی بات ہوتی ہے ، جس کی تفصیل امام بخاری نے اپنی "صحیح البخاری"میں بیان کی ہے کہ "پھر آپ ﷺ کے پاس (غارِ حرأ میں) فرشتہ حاضر ہوا اور کہا "اِقرأ"یعنی پڑھیے، آپ ﷺ نے جواب دیا، "مَا اَنَا بِقَاریٍٔ"میں پڑھنے والا نہیں ہوں، تو فطری بات تو یہی محسوس ہوتی ہے کہ سامنے کوئی لوح یا کاغذ ہوگا، جس پر کچھ درج ہوگا، اگر سامنے کوئی چیز نہ تھی تو پھر پڑھنے کی بجائے ’’دُھرانے‘‘ کا لفظ ہونا چاہیے تھا۔۔۔ اور دُھرانا تو آسان تھا، ابن ہشام کے مطابق ، حضورﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل اس وقت آئے ، جب میں سو رہا تھا، اور ایک ریشمی کپڑا لائے، جس پر کچھ لکھا ہوا تھا، پھر کہا پڑھئیے۔ ہیکل نے"حیاتِ محمدﷺ"میں لکھا "ایک فرشتہ ، جس کے ہاتھ میں ، لکھا ہوا ایک ورق تھا اور اس نے عالمِ رؤیا یعنی خواب ہی میں یہ ورق آپ ﷺ کے سامنے کھول کر کہا "اِقرأ" ، ویسے عربی قواعد کے اعتبار سے اقرأ صیغہ اَمر ہے، جو وجوب اور حکم کے معنی میں آتا ہے، لیکن یہاں یہ "تلقین"کے لیے ہے، تکلیف کے لیے نہیں۔ بارگاہِ نبوت ﷺ کا تقاضا بھی یہی ہے، جب جبرائیل امینؑ نے صرف اقرأ کہا تو جواب ملا، میں پڑھنے والا نہیں، جب چوتھی بار انہوں نے "اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق"یعنی اے مصطفی کریم ﷺ! اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے ،جس نے ساری کائنات کو پیدا فرمایا ہے، وہی اللہ ،آپ کا سینہ ۔۔۔ علم ومعرفت کے انوار سے منور کرنے والااور اُمّی ہونے کے باوجود ، آپ کی زبانِ اقدس پر کلماتِ حکمت کو جاری کرنے والا۔ یعنی آپ علوم کو سیکھ کر پڑھنے والے نہیں بلکہ اس رب کی عطا سے پڑھنے والے ہیں، جس نے آپ ﷺ کو سارے عالم کے لیے مُعلم اور استاد بنا کر بھیجا ہے۔ ویسے عبداللہ یوسف علی نے اپنے انگریزی ترجمہ میں "اقرأ"کا ترجمہ Proclaimبھی کیا ہے جس کا معنی "اعلان کرو"۔۔۔ جو کہ زیادہ بلیغ محسوس ہوتا ہے۔