یہ بات تو عام مشاہدے کی ہے کہ ثمر بار پیٹر اپنی ٹہنیوں کو جھکا دیتا ہے اور سایہ دار درخت اپنی بانہیں پھیلاتا ہے اور تناور درخت پرندوں کو بلاتے ہیں۔ ایک برگد کا درخت بھی ہوتا ہے جس کی بزرگی چھپائے نہیں چھپتی، وہ صدیوں کی کہانی کہتا ہے۔ پتہ نہیں مجھے تو اس پر صوفی اور درویش کا گمان ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی خیال میرا منیر سیفی کے حوالے سے ہے۔ انہیں پہلی مرتبہ ایک مشاعرے میں دیکھا تو وہ ایک بابو تھے۔ کاٹ دار شعر سنا رہے تھے۔ پتہ چلا کہ وہ کراچی کے بینک میں تھے اور اب لاہور آ گئے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہئیت کذائی بدلتی گئی، وہ باریش ہو گئے۔ وہ پہلے بھی دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ایک نفیس الطبع شخص تھے۔ محسوس ہوتا تھا کہ شفاف اور صاف باطن چہرے مہرے سے ظاہر ہو گیا ہے۔ ذرا ان کے دو نعتیہ اشعار تو دیکھیں: ؎ آسرا کب تلک سہاروں کا اپنی درخواست اپنے ہاتھ گزار روشنی منقطع نہ ہو جائے جتنی جلدی ہو واجبات گزار دل ان کی طرف کھنچتا تھا۔ ان کو ملنے ان کی طرف جاتا تو ایک گونہ آسودگی ملتی میزبان بھی وہ کمال کے تھے، احترام آدمیت اولین ترجیح میں رکھنے والے۔ بہت تکلف کرتے مگر خلوص غالب ہوتا۔ باتوں میں ایک تقدس ہوتا۔ پھر وہ اپنے ہاتھ میں تسبیح رکھنے لگے۔ حفیظ تائب کی طرح جس پر نعت نے اثرات مرتب کیے اور ان کی شخصیت نعت میں ڈھل گئی۔ حج کر کے آئے تو یوں سخن کیا کہ پوری وارداتِ دل بیان کر دی۔ آپ کیفیت کے اشعار دیکھیں اور سر کو دھنتے جائیے: ؎ پہلے تو نکل جاتے ہیں بل سارے وہاں پر گردن کو عطا ہوتا ہے خم اور طرح کا جاتے ہوئے اٹھتے تھے قدم اور طرح سے آتے ہوئے پڑتا ہے قدم اور طرح کا مجھے یاد آیا کہ ان کا شاگرد خاص احمد سبحانی آکاش تھا۔ ایک مرتبہ میں اسے ملا تو کہنے لگا استاد جی منیر سیفی کا حکم ہے کہ آپ کو ملا کروں اور کچھ باتیں بھی بتائیں تو مجھ پر کھلا کہ وہ کتنا پیار کرنے والے ہیں۔ اس کے بعد سبحانی نے اپنا پہلا پہلا واقعہ مجھے سنایا تو میں دم بخود رہ گیا کہ عظیم لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ یہ وصف عارف عبدالمتین میں تھا کہ مہمان نوازی کی وہ حد کر دیتے مگر منیر سیفی کا اپنا انداز تھا۔ احمد سبحانی آکاش ان سے متاثر ہوا اور مشاعرے کے بعد کہنے لگا کہ وہ ان کے ساتھ جائے گا۔ سیفی صاحب سمجھے کہ شاید اسے کہیں ڈراپ ہونا ہے مگر وہ تو سیفی صاحب کے عشق کا گھائل تھا۔ ان کے ساتھ ہی گھر چلا گیا کہ ان کے پاس بیٹھتاہے۔ منیر سیفی اسے اپنے کمرے میں لائے اور اس کے جوتے اٹھا کر سیدھے کرنے لگے۔ سبحانی بھاگ کر آگے ہوا ’’سیفی صاحب یہ کیا، آپ گنہگار کر رہے ہیں‘‘ سیفی صاحب بولے ’’یہ میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہو، تم میرے مہمان ہو، تمہاری عزت مجھے کرنی ہے‘‘ اب بتائیے ایسے لوگ کہاں ملیں گے۔ سبحانی کہنے لگا ’’آپ تو چاہے میری کھال کے جوتے بنا لیں‘‘۔ ایک مشاعرے میں انہوں نے سلام کا شعر پڑھا تو یقین مانیے میرے تو سارے حواس جگمگا اٹھے۔ ہائے ہائے حضرت امام حسینؓ یہ کیا شعر کہا تھا: ؎ جلا بھی شدتِ جاں سے بجھا بھی شان سے تھا وہ اک چراغ جو سورج کے خاندان سے تھا میں چلتے پھرتے ہی سیفی صاحب سے درخواست کر کے یہ شعر سنتا اور اپنا ایمان تازہ کرتا۔ ایک مرتبہ ہم اکٹھے ساہیوال کالج کے مشاعرہ میں بھی گئے۔ ان کے ساتھ سفر کرنے کا لطف آیا اور مشاعرہ پڑھنے کا بھی۔ دو شعر میری لوح دل پہ نقش ہو گئے: ؎ سب چالیں چل بیٹھا ہوں اب مٹی کی باری ہے تم سے رات نہیں کٹتی ہم نے عمر گزاری ہے ان کے چار شعری مجموعے چھپے تھے، نعت کے مجموعے کا نام ’’مثال‘‘ ہے۔ ’’لَو‘‘’’الست‘‘ اور حمد کا مکمل مجموعہ کچھ مجموعے ابھی اشاعت پذیر ہیں ان کا بیٹا اسامہ منیر ان پر کام کر رہا ہے۔ ایک ادیب سائل نظامی بھی ان پر کام کر رہے ہیں۔ منیر سیفی صاحب اپنی زندگی میں دکھاوے اور خود پرستی سے کوسوں دور تھے۔ اپنے آپ میں سمٹے ہوئے اور کہیں لو لگائے ہوئے۔ ایک واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ ایک جگہ ہم لوگ بیٹھے تھے تو ہمارے عہد کے ایک بزرگ شاعر اور کالم نگار اپنی توصیف میں ہمہ تن باتیں کرتے جا رہے تھے کہ بھارت والے تو ان کے سوا کسی کو مانتے ہی نہیں، کبھی وہ اپنے آپ کو غالب سے زیادہ اہم بتاتے، نام میں قصداً نہیں لکھ رہا کہ غیبت سے بچ جائوں۔ منیر سیفی صاحب بھی ان کی باتیں سنتے رہے اور تسبیح پھیرتے رہے۔ پھر ایک لمحہ ان شاعر کی گفتگو میں ایسا آیا کہ درویش منیر سیفی ان سے مخاطب ہوئے۔قبلہ آپ کی ساری باتیں درست مگر یہ باتیں کوئی دوسرا کرے تو زیادہ اچھا ہو۔ پھر کیا تھا سب اپنی ہنسی روکتے رہے۔ چلیے دوبارہ آتے ہیں ان کی شاعری پر تو حضورؐ کی ہجرت کے حوالے سے دوخوبصورت اشعار دیکھیے: ؎ ان دیکھے قریوں کو راہیں کھلتی ہیں آنکھیں بند کروں تو آنکھیں کھلتی ہیں جیسے اونٹ سوار آنے ہی والے ہوں یوں صحرا کو دیکھ کے بانہیں کھلتی ہیں ان کی غزل کا ایک شعر میرے ذہن پر دستک دے رہا ہے اور ہمارے عمومی مزاج کی کیسی عکاسی اس میں ملتی ہے: ؎ منتظر ہوں میں اپنی باری کا اور کھڑا ہوں قطار سے باہر منیر سیفی ہی کے دو خوبصورت شعروں کے ساتھ اجازت: ؎ نڈر بھی ذات میں اپنی ہوں خود سے خائف بھی لہو میں میرے حرا بھی ہے، ارضِ طائف بھی پکارتی ہے مجھے تیرے نام سے دنیا بدل کے رکھ دیئے تو نے مرے کوائف بھی