ہو جاتی ہیں ساری باتیں آ کر میری بات میں گم سب کچھ مجھ سے باہر ہے اور میں ہوں اپنی ذات میں گم یہ کیسی خوش فہمی ہے جو غلط فہمی سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔ یہ ایک بیماری ہے کہ جب انسان اپنے آپ کو کائنات کا یا زمانے کا محور جاننے لگے بس سمجھئے کہ گردش نے اسے بھی گھما دیا ہے لیکن یہ خوش گمانی یقینا اس ڈوگی کی طرح ہے جو اکثر کسانوں کے گڈے کے نیچے چلتا جاتا ہے اور اس کا خیال یہی ہوتا ہے کہ اس گڈے کو بیل نہیں کھینچ رہے بلکہ وہ اس کی وجہ سے چل رہا ہے۔ یہ گمان کی دنیا ہے بعض اوقات واقعتاً پتہ نہیں چلتا کہ کون کس کی وجہ سے چل رہا ہے۔ بعض اوقات تو ملک کے بارے میں بھی یوں لگتا ہے کہ ’’چلا جا رہا ہے خدا کے سہارے‘‘ کہ حکمرانوں کو دیکھیں تو لگتا ہے’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں‘‘ سواری کا دھڑ انسان کا ہے اور سرشیر کا اور جو سوار ہے اس کے ہاتھ میں بلا ہے۔ آج صبح عجب اتفاق ہوا کہ میں پارک سے نکلا تو ہمارے ایک جید عالم جو تفسیر بیان کرتے ہیں تو بندہ عش عش کر اٹھتا ہے۔ نکتہ سنجی اور معنی آفرینی کی داد دینا پڑتی ہے۔ حافظہ بھی کمال کا پایا ہے۔ حاضر جوابی میں بھی ان کا جواب نہیں معصومیت دیکھیے کہ وہ اپنی موٹرسائیکل کو ککس مار رہے ہیں۔ میں بھی ان کی تعظیم میں رک گیا اور انہیں دیکھنے لگا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ پھر ککس مارنے لگے۔ یکا یک انہوں نے اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چابی نکال کر موٹر سائیکل کو لگائی۔ ظاہر ہے وہ پہلی کک پر ہی سٹارٹ ہو گیا۔ وہ بغیر چابی لگائے جانے کب سے ککس مار رہے تھے۔ کوئی کمزور لمحہ آتا ہے کہ چابی لگانے کا بھی خیال نہیں رہتا۔ مگر یوں نہیں کہ آپ عالم اور دانشور ہیں یا کچھ اور بڑے آدمی ہیں تو موٹر سائیکل بغیر چابی کے سٹارٹ ہو جائے۔ مجھے بعض اوقات لگتا ہے کہ حکومت کی موٹر سائیکل بھی بغیر چابی کے سٹارٹ نہیں ہو گی۔ سب باری باری ککس مار رہے ہیں۔ شاید ان کا خیال ہے کہ پٹرول کم ہے اور یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے۔ عمران خان صاحب بار بار عوام کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔ شاید عوام سب کچھ برداشت بھی کر لیتے مگر جب خاں صاحب کہتے ہیں’’گھبرائیں نہیں‘‘ تو وہ خبردار ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے بعض علما مصائب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’رونا نہیں‘‘ تو اصل میں وہ سننے والوں سے مطالبہ گریہ و زاری کر رہے ہوتے ہیں۔ سیف صاحب یاد آئے: مجھ کو تو گردش حالات پہ رونا آیا رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا اور یہاں تو ’’مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں‘‘ ’’ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘ ابھی تو بجٹ آ رہا ہے اور بار بار کہا جا رہا ہے کہ غریبوں کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ اصل میں غریبوں ہی کو تو فرق پڑے گا۔ مہنگائی کی چکی میں وہی تو پسیں گے گرانی کی آگ میں وہی جلیں گے اور انہی کے چولہے ٹھنڈے ہوں گے۔ غریبوں کی مرگ ناگہانی میں امیروں کی حیات جاودانی ہے۔سب نے مل جل کر عوام کو پاگل بنا رکھا ہے۔ سب وہی کچھ ہو رہا ہے جو پیچھے ہوتا چلا آیا ہے۔ اب خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ بجٹ میں حکومتی اخراجات کو کم کیا جائے گا۔ آپ کے اخراجات تو تھے ہی نہیں‘ پھر کمی کیسی۔ بھینسیں تک تو آپ نے بیچ دی تھیں۔ بڑی بڑی حکومتی قیام گاہیں تو یونیورسٹیاں اور تحقیق کے سنٹر بن چکے جب بھی کوئی بجلی گرتی ہے یا پٹرول بم پھینکا جاتا ہے تو آپ کرپشن کے خلاف باردگر اعلان جنگ کر دیتے ہیں قوم کے ہر مسئلہ پر نیچے ہدایت نامہ جاری کر دیتے ہیں جس پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ گویا آپ بے بس اور بے اختیار ہیں۔ ساہیوال کے واقعہ سے لے کر حالیہ کئی واقعات تک آپ نے ہدایات ہی جاری کی ہیں آپ کی ہدایات سے مشہور پروگرام تلقین شاہ کا ہدایت یاد آ جاتا ہے جسے اشفاق صاحب صاحب کہتے تھے ’’تیں ھدایت انج ہی رہنا ایں‘‘ اب تو صرف کفایت شعاری کی صرف نصیحتیں ہی رہ گئی ہیں اور سب کے سب خود’’میاں فصیحت‘‘ ہائے اسد اللہ غالب: یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا چلیے اس معیشت کے جنجال کو بھی چھوڑیے اقتصادیات کو بھی گولی ماریے آپ اخلاقیات کو دیکھ لیں آپ مسلسل مودی کی مذاکرات کے لیے منتیں کئے جا رہے ہیں۔ آپ اس قوم کی عزت نفس کے محافظ ہیں۔ مجھے ایک شعر یاد آ گیا: تمہارے ساتھ رہنا ہے مگر ایسے نہیں رہنا تمہیں گر کچھ نہیں سننا ہمیں بھی کچھ نہیں کہنا یہ ایک عام عاشق کا حال ہے کہ جسے اس کی انا روک رہی ہے کہ محبوب کے لئے بھی اس قدر کیوں گرا جائے کہ وہ بات نہ سنے اورہم ممنائے جائیں ’’سبک سر ہے کہ کیوں پوچھیں کہ تم ہم سے گراں کیوں ہو‘‘ خان صاحب آپ اپنے ملک کی طرف توجہ دیں اور اسے واقعتاً ایسا بنا دیں کہ آپ دوسرے ملکوں کو قرضے دینے والے بن جائیں۔ آپ بھیک مانگنا توہین سمجھنے لگ جائیں اور ایک کروڑ نہ سہی ایک ہزار نوکریوں کا بندوبست ہو جائے۔ دوسری طرف عوام کو اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ شہباز شریف لندن سے آ رہے ہیں کہ جا رہے ہیں ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے کتنے لوگ اور کتنے سپاہی۔ وہ حمزہ کی سیاست بحال کرنے آ رہے ہیں یا مریم کو ڈائون کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا یہ ننگا سچ نہیں کہ لٹیرے اور ڈاکو تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے ہیں لیکن فقیروں کی کمائی تو اب لٹ رہی ہے کبھی کچھ مہنگا ہو جاتا ہے اور کبھی کچھ حتیٰ کہ ہسپتالوں میں میسر سہولتیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ صرف جینا ہی نہیں مرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ آپ کی ایمنسٹی سکیم تک بھی ناکام ہو گئی۔ اصل میں ہر جگہ رکاوٹ اور جمود نظر آ رہا ہے۔ منصوبے سبو تاژ ہو رہے ہیں۔ سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ اگر اپوزیشن کے احتجاج سے مہنگائی کم ہوتی ہے تو ضرور احتجاج کریں۔ یہ کیسا بیان ہے کہ اعتراف جرم ہے کہ مہنگائی کم نہیں ہو سکتی۔ آپ ایک اورنج ٹرین کو دیکھیں اربوں روپے سناٹوں میں ڈوب گئے ہیں۔ عام سطح پر کچھ ڈلیور نہیں ہو رہا۔ تنخواہ دار طبقہ توسچ مچ پس کر رہ گیا ہے۔ اس کی تنخواہ مہنگائی نے سکیڑ دی ہے۔ اب دیکھیے بجٹ میں ان کی قسمت یاوری کرتی ہے یا نہیں۔ تنخواہوں میں اتنا ہی اضافہ ہونا چاہیے جتنا پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا تھا یعنی 50فیصد ۔ پرائیویٹ ملازمین کا تو کوئی پرسان حال نہیں۔ خاص طور پر صحافیوں کی تو بہت ہی غیر یقینی صورت حال ہے۔ عوام بھی تو رکاوٹ ہیں ’’کتنے نادان ہیں محبت کا صلہ مانگ رہے ہیں‘‘: دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے