ایک دائرہ ہے‘ کولہو یا خراس میں جتے بیل کے چلنے والے راستے جیسا۔ اگر مہلت میسر ہو تو دائرہ تمام کرو اور وہیں پہنچ جائو جہاں سے چلے تھے۔ اگر جو چکر پورا کرنے کا موقع نہ ملے تو وہیں راستے میں کہیں ڈھے جائو اور وقت کے دھارے سے باہر جاپڑو۔ اسی کا نام زندگی ہے‘ دائرے میں کیا جانے والا پینڈا۔ پرکاربند ہوتودونوں بازو باہم جڑے ہوتے ہیں۔ پرکار کھولتے چلے جائیے‘ بازئوں میں دوری بڑھتی جائے گی مگر تین سو ساٹھ ڈگری کاز اویہ گھوم کر دونوں بازو پھر سے آن ملیں گے۔ سورۃ النحل کی 70ویں آیت کہتی ہے ’’ اور دیکھو اللہ نے تم کو پیدا کیا‘ پھر وہ تم کو موت دیتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی ارزل عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے کہ سب کچھ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے‘‘۔ اس تمہید کی تفسیر کرتی ایک انگریزی تحریر پچھلے دنوں نظر سے گزری جس کا عنوان’’ کامیابی‘‘ تھا۔ انسان کی مختلف عمروں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیاکہ کامیابی کا مفہوم گزرتی عمر کے ساتھ کیسے بدلتا رہتا ہے ۔دیکھئے دائرے کا سفر کیوں کر طے ہوتا ہے۔ افسوس کہ لکھنے والے کانام میسر نہیں ہوسکا۔ آپ ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔ ٭ایک سال کی عمر میں کامیابی یہ ہے کہ آپ کسی سہارے کے بغیر قدم اٹھاسکتے ہیں۔ ٭چار برس کی عمر میںاگر آپ نے کپڑوں میں پیشاب کرنا چھوڑ دیا تو یہ کامیابی ہے۔ ٭آٹھ برس کی عمر میں گھر واپسی کا راستہ معلوم ہونا کامیابی ہے۔ ٭بارہ برس کی عمر میں دوستوں کا ہونا(دوست دار ہونا) کامیابی ہے۔ ٭اٹھارہ برس کی عمر میںکامیابی یہ ہے کہ آپ نے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرلیا۔ ٭تئیس برس کی عمر میںیونیورسٹی گریجوایٹ ہونا کامیابی ہے۔ ٭پچیس برس کی عمر میں کامیابی یہ ہے کہ آپ برسرِ روزگار ہیں۔ ٭تیس برس کی عمر میں صاحبِ خاندان ہونا(ماں یا باپ کی شکل میں) کامیابی ہے۔ ٭پینتیس برس کی عمر میں صاحبِ زر ہیں تو کامیاب کہلائیں گے ۔ ٭پینتالیس برس کی عمر میں چہرے مہرے پر جوانی کا تاثر برقرار رکھ پانا کامیابی ہے۔ ٭پچاس برس کی عمر میں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم سے بہرہ ور کرنا کامیابی کے زمرے میں آتاہے۔ ٭پچپن برس کی عمر میں اگر ہنوز اپنے تمام فرائض کماحقہ ادا کررہے ہیں تو آپ کامیاب ہیں۔ ٭ساٹھ برس کی عمر میں کامیابی یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو ڈرائیونگ لائسنس کا اہل ثابت کرسکیں۔ ٭پینسٹھ برس کی عمر میں اگر آپ کسی بڑی بیماری کا شکار ہوئے بغیر زندہ ہیں تو کامیاب ہیں۔ ٭ستر برس کی عمر میں اگر آپ کسی دوسرے پر بوجھ نہیںبنے(مادی‘ مالی سہارے سے بے نیازہیں) تو آپ کامیاب کہلائیں گے۔ ٭پچھتر برس کی عمر میں پرانے دوستوں اور ان کی صحبت کا میسر ہونا کامیابی کہلاتا ہے۔ ٭اکیاسی برس کی عمر میں گھر واپسی کے راستے کا علم ہونا ہی کامیابی ہے۔ ٭چھیاسی برس کی عمر اگر آپ اس امر سے بچے ہوئے ہیںکہ پیشاب کے قطرے کپڑوں میں خطا نہیں ہوتے تو آپ خود کو کامیاب گردان سکتے ہیں۔ ٭نوے برس کی عمر میں کامیابی یہ ہے کہ آپ بغیر کسی سہارے کے چل سکتے ہیں۔ غور فرمائیے ایک‘ چار‘ بارہ اور اٹھارہ برس کی کامیابیاں کیسے بالترتیب نوے‘ چھیاسی‘ اکیاسی اور ساٹھ برس کی عمر والی کامیابیوں سے مماثل ہیں۔ وہی دائرے کا سفر‘ تین سو ساٹھ ڈگری والا۔ ایک طویل سفر جو بے بسی سے شروع ہو کر بے بسی کی منزل پر ہی پہنچاتاہے۔ گویاوہ سفرجس کا حاصل وصول کچھ نہیں۔ بڑھاپے کی ایک سطری تعریف اگر مجھ سے پوچھی جائے تو کہوں گا ’’ عمر کا وہ حصہ جب آپ کے جسمانی اعضاء آپ کی حکم عدولی کرنے لگیں‘‘۔ خدانخواستہ کوئی بیماری نہ ہوتو اعضا ایک دم نافرمان نہیں ہوا کرتے۔ رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے گستاخی کی راہ اپناتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ ہاتھ پیر سرکش ہو کر بالکل ہی کہا نہیں مانتے۔ بالکل ویسے جیسے نومولود شیر خوار ماں کی گود میں لیٹ کر اُس کی انگلی پکڑنا چاہتا ہے مگر ننھے ہاتھ‘ اس کی خواہش کا احترام نہیں کرتے۔ میں یہ سب پتہ نہیں کیوں لکھ رہا ہوں‘ شائد اس لئے کہ میرے اعضا بھی اب قدم بہ قدم سرکشی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ اگلے روز امامہ نے کہا ’’ پاپا! میرے سائیکل کے پچھلے ٹائر میں ہوا بھردیں‘‘۔ ایک زمانہ تھا اپنے سائیکل میں ہوا بھرتا توپیشانی پر پسینے کی بوند تک نمودار نہ ہوتی۔ امامہ کے سائیکل میں ہوا کو چار چھ پمپ کیا مارے‘ کمر کا درد نکل گیا اور اگلے تین چار دن چلتے پھرتے الائنمنٹ ہی ٹھیک نہ ہوتی تھی۔ سوچتا ہوں یہ اکڑفوں کس بات کی ہے؟ میں‘ میں اور میں۔ ساری مراعات کا‘ سارے اختیارات کا رُخ بس میری طرف ہو۔ بندہ نہ ہوا بکری ہوگیا۔ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہر فراز کے بعد نشیب ہے اور نشیب میں اترنا سہل نہیں۔ سنبھل کر چلنے والا‘تاریک نشیب میں اُترتاراستہ ۔ امجد اسلام امجد یاد آگئے۔ ساری دنیا یہ کہتی ہے پربت پہ چڑھنے کی نسبت اترنا بہت سہل ہے کس طرح مان لیں؟ تم نے دیکھا نہیں سرفرازی کی دھن میں کوئی آدمی جب بلندی کی رستے پہ چلتا ہے تو سانس تک ٹھیک کرنے کو رکتا نہیں اور اسی شخص کا عمر کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے پائوں اٹھتا نہیں