دو روز پہلے سمندر پارپاکستانیوں کا ایک وفد وزیراعظم سے ملا۔ وزیراعظم نے اس کی اطلاع ٹویٹر پر دی جس میں انہوں نے بتایا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو مراعات اور سہولتیں دی جائیں گی۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے آغاز یوں کیا: سمندر پار پاکستانیوں کے ایک گروہ نے ملاقات کی…الخ۔ اس پر بعض ناقد حضرات حرکت میں آئے اور گروہ کے لفظ پر گرفت کی۔ گروہ منفی لفظ نہیں ہے لیکن اسے بالعموم منفی ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کا مطالعہ اردو جیسا ہے، اس کے اعتبار سے انہوں نے گروہ کا لفظ بھی مناسب سمجھا یا وفدکا لفظ ان کے ذہن میں نہ آ سکا۔ بہرحال، اتنا بھی غنیمت ہے، وہ اگر یوں لکھ ڈالتے کہ سمندر پار پاکستانیوں کے ایک غول نے ملاقات کی تو احباب اردو کا کیا حال ہوتا۔ سمندر پار کا ترجمہ ’’بیابان غربت‘‘، بھی ہوسکتا ہے، یوں ٹویٹ اس طرح بھی شروع ہو سکتا تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے ایک غول بیابانی نے ملاقات کی۔ لفظ معروضی ہوتے ہیں، ان کا استعمال یا استعمال کرنے والے اسے منفی یا مثبت بنا دیتے ہیں۔ گروہ کا ایک متبادل جتھہ بھی ہے۔ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں اسے منفی معنوں میں لیتے ہیں لیکن مشرق پنجاب کے سکھ اس کا مثبت استعمال کرتے ہیں مثلاً شہیدی جتھہ۔ ٭٭٭٭٭ ایک دلچسپ لفظ بھوت ہے۔ یہ منفی طاقت سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس کے معنی محض روح کے ہیں ۔ایسی روح جو کسی کے مرنے کے بعد ادھر ادھر گھومتی رہے۔ بھوت اردو ہندی ہے، روح عربی فارسی ہے اور گھوسٹ انگریزی کی۔ منفی طاقت کو بدروح یا بھوت پریت یا پریت آتما کہا جاتا ہے۔ مطلق بھوت کوئی برا لفظ نہیں لیکن استعمال میں یہ لفظ برا ہو گیا ہے۔ مثلاً کوئی کہے کہ رات والا مرحوم کا بھوت میرے خواب میں تشریف لایا تو سننے والے ہنس پڑیں گے۔ ایک نام ہے ’’ہولی گھوسٹ‘‘۔ اسکا ترجمہ آپ کیا کریں گے؟ ہولی یعنی مقدس اور گھوسٹ یعنی بھوت؟ یہ نہ صرف مضحکہ خیز ہو جائے گا ۔ اس لیے کہ یہ حضرت جبرائیل ؑ کا نام ہے۔ ہولی گھوسٹ کا ترجمہ مقدس روح یا روح القدس ہے۔ سبھی حضرات یہی ترکیب استعمال کرتے ہیں، مسلمان روح الامین کہتے ہیں۔ یعنی روح الامین جناب حضرت جبرائیل ؑ۔ ٭٭٭٭٭ الفاظ کا بے محل استعمال ہمارے ٹی وی چینلز پر عام ہوتا جارہا ہے۔ لیکن اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔ حالات کی مناسبت سے ایک اور لفظ پیش خدمت ہے یعنی بدقسمت۔ یہ لفظ اور بدبخت ہم معنی ہیں۔ قسمت عربی اور بخت اس کا فارسی متبادل ہے۔ معنی میں سرمو فرق نہیں۔ لیکن کسی پر آئی آفت کے حوالے سے اس کا ذکر ازراہ ہمدردی کرنا ہو تو کہا جائے گا بے چارہ بدقسمت یا بدنصیب ہے جو اس کے ساتھ ایسا ہوا۔ دشمن کو مشکل میں دیکھ کر ’’بدبخت‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی اس طرح کہ بدبخت کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہماری قوم کے بارے میں کیا خیال ہے۔ بدقسمت ہے یا…؟ الفاظ کے متبادل ٹھیک طور پر استعمال نہ ہوں تو خبر کا حلیہ بھی بگڑ جاتا ہے۔ مثلاً ایک خبر یوں ہو کہ ’’خوانچہ فروشوں کے ایک وفد نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی اور اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر شدید احتجاج کیا۔ وزیراعلیٰ نے وفد کو مسائل حل کرنے کا یقین دلایا جس پر وفد مطمئن ہو کر چلا گیا۔ بے محل متبادل استعمال کرنے پر یہ خبر یوں بھی ہوسکتی ہے۔ ’’پتھاریداروں کے ایک جتھے نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی۔ اپنے مسائل کا سیاپا ڈالا اور خوب غل غپاڑہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے کئی لارے لپے لگا کر جان چھڑائی۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے دوماہی دور حکومت میں زرمبادلہ کے ذخائر سے دس سے آٹھ ارب ڈالر ختم ہو گئے۔ 18 ارب ڈالر تھے، صرف آٹھ رہ گئے۔ یہ دس ارب ڈالر کہاں گئے؟ کیا بھاپ بن کر اڑ گئیٖ؟ وزیر خزانہ کو علم ہو گا شاید۔ اگر انہیں نہیں ہوگا تو کسی اور کو ہوگا۔ یہ ایک بزرگ ہستی یعنی زندہ پیر کا فرضی نام ہے۔ یہ زندہ پیر بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ انہیں روحانیت کی چوبرجی اور عرفانیت کا نیلا گنبد کہنا چاہیے۔ رازوں کی تہہ تک پہنچنے میں پچھلے ڈیڑھ ہزار سال میں ان کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ چند مثالیں حاضر ہیں۔ نوازشریف نے 300 ارب روپے چوری کئے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ نہ سٹیٹ بینک کو نہ نیب کو، نہ وزارت خزانہ کو، نہ امریکہ کو، نہ اس کی سی آئی اے کو، نہ آئی ایم ایف کو نہ ورلڈ بینک کو لیکن انہیں پتہ چل گیا اور انہوں نے چیخ چیخ کر ساری دنیا کو بتا دیا۔ پاکستان سے ہرسال دس ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی رہی۔ پاکستان میں اور دنیا میں کسی کو بھنک تک نہیں ہوئی، لیکن انہیں پتہ چل گیا۔ پاکستان میں ہر روز ایک ہزار ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، کوئی نہیں جانتا تھا لیکن وہ جانتے تھے۔ نوازشریف نے بھارت میں اربوں کا سرمایہ بھیجا وہاں کارخانے لگائے۔ اس کا علم بھی کسی کو نہیں تھا، حتیٰ کہ بھارت کو بھی پتہ نہیں تھا لیکن جناب کو پلک جھپکتے میں علم ہوگیا۔ اپنے دور حکومت میں پٹرول کی فروخت پر نوازشریف کو فی لٹر پچاس روپے کا بھتہ ملتا تھا، اس کا علم بھی، پوری کائنات میں صرف جناب کوتھا۔ بھائی علوم جلی و خفی میں اس مقام پر ہیں جس کا بس تصور ہی کیا جاسکتا ہے اور مستزادیہ کہ عجز و انکسار بھی ان پر ختم ہے۔ چند ماہ پہلے بڑے عجز سے یہ انکشاف ٹی وی پر فرمایا کہ میرے گھر میں مولانا روم اور ابن عربی کے مجموعی علم سے کہیں زیادہ علم دھرا رکھا ہے۔ اس موقع پر ان کا سر عجز و نیاز سے جھکا ہوا تھا۔ گزشتہ ہفتے انکسار کے ساتھ فرمایا کہ سارے مسئلے حل کر کے دکھائوں گا۔ اسد عمر کو اگر پتہ نہیں ہے کہ یہ دس ارب ڈالر کہاں گئے تو جناب سے رجوع فرمائیں۔ ٭٭٭٭٭ پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی نے چنائوتی دی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کی کوشش کی تو اس کی مزاحمت کی جائے گی۔ پیپلزپارٹی ابھی اس خام خیالی میں ہے کہ یہ ترمیم ختم کرنے کے لیے حکومت کو دوتہائی اکثریت چاہیے، وہ ہم نہیں لینے دیں گے۔ حضور، یہ ترمیم ایوان میں ختم نہیں ہوگی۔ یہ نہ تو ایوان بالا میں کوئی ترمیم آئے گی نہ ایوان زیریں میں۔ یہ کہیں اور سے ختم کرنے کی سکیم ہے۔ بس ایک حکمنامہ آئے گا اور پھر ربانی صاحب اور ان کی پارٹی یا کوئی اور پارٹی دم بھی نہ مار سکے گی۔ سڑکوں پر ایجی ٹیشن بھی نہیں ہوگا۔ اگر ہوگا تو خبر نہیں چلے گی اور خبر نہیں چلے گی تو بات نہیں بنے گی اور بات نہیں بنے گی تو حکومت کی بن آئے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر وفاق کی جان پر بن آئے گی، ملکی اتحاد کی تقدیر بگڑ جائے گی لیکن یہ باتیں بعد کی ہمیں پھر جو پچھتاوے ہوں گے، وہ بھی بعد از وقت ہوں گے۔