ندا فاضلی کا مشہور شعر ہے ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا اسے کئی حوالوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے، ان میں سے ایک سیاست بھی ہے۔سیاستدان انسان ہیں اور ان کے بھی کئی شیڈز ہوتے ہیں ، بیک وقت کئی چہرے، کئی انسان جو ایک وجود میں سمائے ہیں۔ کسی کا منفی چہرہ ہمارے سامنے ہوتا ہے، مگر اس کے اندر دل موہ لینے والا مثبت انسان بھی موجود ہے، صرف اسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح ہم بطور مداح کسی لیڈر کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں، اس کی پرستش کرنے لگتے ہیں، اس کی طاقتور، پرکشش شخصیت کے اندر ڈارک مواد بھی ہے، ایسا چہرہ جو روشن نہیں۔ منفی پہلو بھی اسی انسان کے اندر موجود ہیں، ہم دانستہ نظریں چرا لیتے ہیں۔ اگرچہ حقیقت بدل نہیں جاتی۔ روئیداد خان کی آپ بیتی’’ پاکستان انقلاب کے دھانے پر‘‘مجھے بہت پسند ہے، اس میں کمال کے حوالے، واقعات، ٹکڑے شامل ہیں ۔ پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کتنا صاحب مطالعہ ہے، اس کا ترجمہ بھی بہت عمدہ ہوا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے اس کا انگریزی اور اردو دونوں ایڈیشن شائع کئے ۔ روئیداد خان نے امریکی مصنف رابرٹ ڈیلک کا امریکی صدر لنڈن بی جانسن کے بارے میں ایک دلچسپ تجزیہ پیش کیا، ڈیلک لکھتے ہیں کہ صدر جانسن وہ شخص تھے جس کے بارے میں معتدل یا متوازن رائے موجود نہیں، لوگ ان سے شدید نفرت کرتے تھے یا شدید محبت۔ ان کے پرستار تھے یا پھر شدید نفرت کرنے والے ۔ روئیداد خان نے یہ بات بھٹو صاحب پر منطبق کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بارے میں بھی ایسا ہی تھا۔ بات واقعی درست ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو پچھلے پچاس برسوں سے بھٹو سے عشق کئے جا رہے ہیں،بھٹوکو مٹی اوڑھے ہوئے اکتالیس برس ہوگئے، مگر جیالوں کی ان سے محبت میں فرق نہیں آیا۔ ایسے بھی کم نہیں جنہوں نے بھٹو صاحب کی زندگی میں انہیں سخت ناپسند کیا، ان کی موت پر بھی دل نہ پسیجے۔ ان دونوں شدتوں سے کچھ کم کی کیٹیگریز بھی دونوں طرف موجود ہیں، مگر اصل بات وہی کہ بھٹو صاحب کے بارے میں متوازن، معتدل تجزیہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔ یہاں یہ نہ سمجھ لیجئے کہ یہ ذمہ داری خاکسار اپنے کاندھوں پر اٹھانے لگا ہے۔ نہیں،ایسا نہیں۔ میں صرف یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ بھٹو صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں، بہت اچھے اور بہت برے دونوں،حتمی رائے بناتے وقت سب کو نظر میں رکھنا چاہیے۔ بھٹو صاحب کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے سماج میںاچھی بھلی اتھل پتھل مچائی۔کئی پرانے پاپولر نظریات، مِتھ ٹوٹ گئے اور نئے سیاسی ٹرینڈ قائم ہوئے۔ روایتی سوچ رکھنے والے طبقات بھٹو کے جارحانہ اندازسے مضطرب ہوئے،شہری اور قصباتی لوئر مڈل کلاس نے خاص طور سے اپنامنفی ردعمل ظاہر کیا۔دیہات میں البتہ بھٹو کو زیادہ جگہ ملی۔ بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن پالیسی کی وجہ سے زمیندار، صنعتکار، سرمایہ دار، بینکر، کاروباری افراد بڑے پریشان ہوئے۔ بھٹو صاحب اور پیپلزپارٹی کے بظاہر مذہب بیزار قسم کے تاثر نے مذہبی اور نیم مذہبی طبقات میں شدید ردعمل پیدا کیا۔پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں رائٹ ونگ،رائٹ آف دی سنٹر اورسنٹرسٹ تاجر، کاروباری طبقات وغیرہ سب شدید اینٹی بھٹو لہر کی لپیٹ میں آ گئے۔ سماج میں ایک بڑی تقسیم ان دنوںپیدا ہوئی۔ بہت بعد میں جا کریہ ٹوٹی اور پھر پرو نوازشریف، اینٹی نواز شریف تقسیم میں تبدیل ہوگئی۔بھٹو صاحب نے جنہیں اپنی پرکشش شخصیت سے متاثر کیا یا وہ بھٹو کی اصلاحات کے مداح تھے یاجو لوگ راشن ڈپو ، پرمٹ وغیرہ کی بندر بانٹ سے مستفید ہوئے، ان سب پر بھٹو کے گہرے نقوش ثبت ہوئے۔ بھٹوصاحب کی موت بھی ڈرامائی المیہ سے کم نہیں۔ شیکسپیئر جیسا قلم کار ہوتا تواس کی ٹریجڈی ڈراموں میں اضافہ ہوجاتا۔نوابوں کی طرح پرورش پانے والا،معروف عالمی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والاجو روانی سے اعلیٰ انگریزی بولتا اور مغرب کو اپنی برجستگی، ذہانت سے متاثر کرتا تھا، وہ فوجی حکومت کے ہاتھوں عاجز آ گیا۔عالی شان بنگلوں میں رہنے والے کو چند فٹ کی کوٹھری میں ڈیڑھ پونے دو سال کا عرصہ گزارنا پڑا۔ طرح طرح کی اذئیت سہنی پڑی۔ سزا دینے پر تلی ہوئی فوجی حکومت، دل میں کینہ چھپائے بدلہ لینے پر مصرچیف جسٹس ہائیکورٹ، دبائو سے خائف جج، بحران میں ساتھ نہ دینے والے پارٹی رہنما، محبت کرنے والی بیوی اورنازوں میں پلی بیٹی کی آنسو بھری آنکھوں کی چبھن اور نجانے کیا کیا۔یہ سب بے رحم، سفاک حقیقتیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ان کی پھانسی جوڈیشل مرڈر تھا۔آخری تجزیہ میں یہ سیاسی کیس ہی تھا۔ جب ملک پر فوجی حکومت مسلط ہو، ڈکٹیٹر اپنے سب سے بڑے حریف کو قبر میں دھکیلے پر مصر ہو، کوئی سیاسی ، غیر سیاسی قوت اسے روکنے والی نہ ہو، تب انصاف کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ کہتے ہیں کہ یحییٰ بختیار اچھے فوجداری وکیل نہیں تھے، اگر کوئی کریمنل لاء کا ماہر وکیل ہوتا تو نتیجہ دوسرا ہوتا۔ کیا واقعی؟ کیا ایسے لوگ حقیقتاً یہ سمجھتے ہیں کہ جنرل ضیا بھٹو کو چھوڑ دیتا،انہیں سیاست کرنے دیتا؟روئیداد خان نے جنرل ضیا کا جملہ نقل کیا ہے کہ قبر ایک ہے اور لاشیں دو، ایک نے قبر میں لازمی جانا ہے۔ بات سچ ہے، ضیا حکمران تھے، اس لئے بھٹو قبر میں گئے۔ بھٹو کی موت کیسی ہی مظلومانہ سہی، بھٹو مگر صرف تعزیت ، پرسے کا موضوع نہیں، بھٹو صاحب تاریخ کا بھی موضوع ہیں۔ تاریخ ہر ایک سے انصاف کرتی ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بھٹو ایک سیاستدان تھے، مگر ان کے اندر بھی ایک سفاک ، بے رحم، بے لحاظ آمرتھا۔ انہوں نے جمہوری روایات کی دھجیاں اڑا دیں۔ اپوزیشن کو بے رحمی سے نشانہ بنایا۔ اہم اپوزیشن لیڈروں کو برسوں جیلیں کاٹنا پڑیں، انہیں سخت ترین ، مکمل غیر انسانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی تفصیل اخبار میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ڈاکٹر نذیر، خواجہ رفیق جیسے قتل ہوئے، احمد رضا قصوری پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ان کے والد نشانہ بن گئے۔ پریس پر پابندیاں لگیں۔ کئی دلیر صحافیوں کو بار بار جیل بھیجا گیا، ان کے اخبارات، جرائد بند ہوتے رہے۔ الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر اعجاز قریشی، مجیب الرحمن شامی، محمد صلاح الدین وغیرہ نے یہ سب جبر سہا۔ حسین نقی توبھٹو کے دوست اور لیفٹ کے تھے، وہ بھی جیل گئے۔ سیاسی کارکنوں کو جس بے رحمی سے بھٹو دور میں نشانہ بنایا گیا، اس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ بے داغ، کھرے سیاستدان سردار شیرباز مزاری نے اپنے انٹرویو میں بتایا ،’’ ہم نے بھٹو دور میں بھی جیل بھگتی، ضیا دور میں بھی جیل گئے، فرق یہ تھا کہ ضیا کے دور میںسیاسی کارکن جیل جاتے تھے، ان کے گھروالوں کی عزتیں محفوظ رہتی تھیں، بھٹو دور میں گھر والوں کی عزت بھی خطرے میں رہتی۔ ‘‘یہ صرف مخالفین کے ساتھ نہیں تھا، اپنے کسی اکھڑ رکن اسمبلی کو بھی سبق سکھانا مقصود ہوتا تواس کی بیٹی اٹھا لینے کی دھمکی دی جاتی۔کوئی سوچ سکتا تھا کہ جے اے رحیم جیسے پیپلزپارٹی کے بانی بزرگ دانشور کو بھٹوانتظامیہ کی جانب سے سخت بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑے گا؟ایسا ہوا، بہت لوگوں کے ساتھ ہوا۔ بھٹو دور میںتاجپورہ لاہور میں ایک بہت مشہور ضمنی انتخاب ہوا۔ بھٹو صاحب کے سابق ساتھی افتخار تاری پیپلز پارٹی کے مخالف الیکشن لڑ رہے تھے،ان کو سبق سکھانے کے لئے جلسے میں گولیاں چلائی گئیں۔ درجنوں لوگ ہلاک ہوئے، مگرسنسرشپ کے ذریعے ایک سطر کی خبر بھی اخبار میں شائع نہ ہونے دی گئی۔ شامی صاحب ان دنوں ایک ہفت روزہ نکالتے تھے، انہوں نے لاشوں کی تصاویر کے پوسٹر رسالے میں الگ سے رکھ کر گھروںمیں بھیجے ۔ شائع کرتے تو گرفتار ہوجاتے ۔ الطاف حسن قریشی نے اردو ڈائجسٹ میں ایک شاہکار اداریہ لکھا، اس پر قریشی برادران گرفتار ہوئے، پریس سیل ہوا، جریدے کا ڈیکلیئر یشن منسوخ ہو گیا۔ یہ سب بھٹو صاحب کے ہی دور میں ہوا۔ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنے آخری دنوں کے ایک انٹرویو میںتسلیم کیا کہ اس روز اٹھائیس لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ تاریخ کے کاغذوںمیں یہ سب روداد محفوظ ہے۔ اسی سفاک، بے رحم ، بے لحاظ ، نخوت پسند بھٹو کے اندر ہی ایک زبردست نیشنلسٹ لیڈر موجود تھا۔ قوم پرست جو پاکستان کو عظیم بنانے کا خواب دیکھتا تھا۔ جس نے سٹیل ملز جیسے بڑے پراجیکٹ لگائے، بھارت کی برتری کو ختم کرنے کے لئے ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ افغانستان میں بھارتی سازشوں کو کائونٹر کرنے کے لئے استاد ربانی، حکمت یاراور دیگر لیڈروں کے ساتھ رابطے کئے۔کمال ہوشیاری کے ساتھ شملہ معائدہ کیا اور قید فوجیوں کو واپس لے آیا۔مسلم بلاک بنانے کی اس نے باقاعدہ کوشش کی۔امریکہ جیسی سپرپاور کا گماشتہ بننے کے بجائے اس کے سامنے مزاحمت کی۔ بھٹو آخری تجزیے میں ایک وطن پرست لیڈر تھا۔اس کی اصلاحات گو بری طرح ناکام رہیں، ملکی معیشت کو سخت نقصان پہنچا۔ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ سماجی سطح پر مزدور، مزارع کو اپنے حقوق کا احساس بھٹو نے دلایا، غریب آدمی کو مفت تعلیم ممکن ہوپائی۔ بھٹو مذہبی آدمی نہیں تھا، اسے مولوی کے نام سے چڑ تھی، آخری رات یہ کہتے ہوئے شیو کیا کہ میں کسی دڑھیل ملا کی موت نہیں مرنا چاہتا۔ اسی بھٹوپر جب قادیانیوں کے مذہبی عقائد آشکار ہوئے تو اس نے انہیں غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کر لیا۔یہ کہنا زیادتی ہے کہ بھٹو نے سیاسی مفادات کے تحت ایسا کیا۔ یحییٰ بختیار کی گواہی موجود ہے کہ بھٹو صاحب نے دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد قائل ہو کر یہ فیصلہ کیا۔ کیا خبر کہ روز آخرت یہی تمغہ بھٹو کو کتنوں سے ممتاز بنا دے۔