پاکستان آزاد ہوا، جغرافیائی پاکستان پر خیانت پیکر انگریز اور حیا سے عاری ہندو نے ضرب کاری لگائی۔ کچھ ریاستیں اور کچھ علاقے تھے کہ وہ برضا و رغبت پاکستان کے جغرافیے میں وسعت کا سبب بن گئے۔ کشمیر حیدر آباد دکن پر ہندو ننگ انسانیت نے اپنی بدنیتی کا پورا مظاہرہ کیا۔ کئی ننگ اسلاف بزعم خویش مرتبہ صالحیت پر فائز اور کھلم کھلا ننگ انسانیت ہندوئوں نے پاکستان کو خواب قرار دیا۔ کئی قلندری ذوق گویوں نے پاکستان کی پ کو لوح کائنات سے خارج کر رکھا تھا۔ رات بھر پاکستان کے قائدین کو استہزاء کی بنسری پر رکھ کر نشانہ تضحیک بنایا جاتا تھا۔ لوگ رات بھر سیاسی تھیٹر کے باریش گلو کاروں کی سنتے اور صبح پھر پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ(ﷺ) کے فلک شگاف نعروں سے امید کی روشنی عام کرتے تھے۔ یہ روشنی کا تسلسل تھا جس کا فیضان مسلسل مدینہ مبارکہ(ادا مھا اللہ دائما) کی ریاست مصطفوی علی صاحبھا الصلوٰۃ و اسلام سے جڑا ہوا تھا۔ یہ فیضان مخدوم رحم حضرت داتا ہجویری کی ثمر بار کوششوں سے ہند میں شجر ایمان بن کر راحت رساں ہوا تھا۔یہ نائب رسول فی الھند خواجہ غریب نواز کی مساعی کا عنوان تاریخ تھا۔ آخر میں انہیں کے اخلاف تھے۔ اولاد تھی‘ معتقدین تھے جو پیر جماعت علی شاہ‘ حضرت مہر علی شاہ‘ صدر الافاضل نعیم الدین مراد آبادی اور سید محمد محدث کچھوچھوی، شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی‘ خواجہ عبدالرحمن بھرچونڈی شریف کی قیادت میں ہمت فرزانہ اور ذوق جنون کا ہتھیار اٹھائے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برسر جنگ تھے۔ پوری قوم استقامت کا سراپا بنے۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘ کی منزل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اور ایک طویل جان لیوا جدوجہد کے بعد پاکستان وجود میں آیا لیکن بزعم خویش مدعیان اسلام منافق صفت پاکستان دشمنوں نے کبھی بھی پاکستان کی نعمتوں سے فیضیاب ہونے کے باوجود نہ تو پاکستان کو دل سے تسلیم کیا اور نہ ہی پاکستان کی خاموش مخالفت سے باز آئے۔ پاکستان کے نظریے کو کبھی بھی اسلامی نظریہ ہی تسلیم نہ کیا۔ کانگریس کی چھتری کے سائے میں سیاسی پناہ گزین لوگوں کے ہم خیال اگر کسی عالم دین نے قائد اعظم کی قیادت کی تائید کی اور قائد اعظم کا ساتھ دیا تو ایسے بزرگ علماء بھی کانگریسی وظیفہ خواروں کی تنقید سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اٹھتے بیٹھتے ایک ہی حرز جان وظیفہ کہ تقسیم ہند غلط ہوئی، کبھی کسی پر روحانی بقراطیت طاری ہوتی تو اس نے برسر مجلس کہہ دیا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے یہ لوگ پاکستان کے نام پر کھاتے ہیں پاکستانی وسائل سے ان کی دنیا رشک جنت بن گئی ہے عہدے منصب ‘ وزارت‘ مشاورت کے جھولے پر استراحت فرما ہوتے ہیں۔ لیکن سوچ وہی کہ میں نہ مانوں۔ قائد اعظم سے وہ بغض کہ لفظ قائد اعظم کہتے ہوئے دس دفعہ زبان کو تقیہ سے لپیٹ کر نجانے کس نیت اور کس خیال میں یہ لفظ ادا کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جن کی زبان اور دل کے فاصلوں میں بین السماء و الارض جتنی پیمائش ہے اور بہت سے لوگ ہیں جن کے سر بڑے ہیں مگر فکر تلاش کرنے کے لیے حیرت کے سمندر میں ڈوبنا پڑتا ہے اور بہت سے فنکار ہیں کہ جن کا وطیرہ حیات فن کی آبیاری ہے۔ ایمان و دیانت کا باب ان کی ڈکشنری میں موجود ہی نہیں ہے۔ فنکار بڑے کامیاب ہیں ایک دفعہ ایسی فنکاری دکھائی کہ دنیاوی بیانیے کے ماہر فنکاران کے قدموں پر جھکے اور انہوں بٹر بٹر دیدے مٹکا کر خود کو شاباش دی یہ ہے کمال جناب شیخ کا۔ عمران خان اور طاہر القادری نے نااہل وزیر اعظم والی اسمبلی کا گھیرائو کیا ہوا تھا نااہل لوگوں نے روایتی جادوگروں کو بلوایا اور منتر پڑھنے کی التجا کی تو ایک پیٹ پر چادر لپیٹے ننگے سر دوسرا دستار سے سر کا پردہ کئے ایسے ایسے کمالات دکھا رہے تھے کہ عوضانہ پورا ہو گیا۔ یہ بے نور اراکین اسمبلی اسی لیے سول سوسائٹی کے عملی نمائندہ ہیں کہ اس اسمبلی میں ایسے ایسے مدعیان دین بھی تھے جنہوں نے ختم نبوت کے دشمنوں کو قانونی شامیانہ فراہم کرنے کے لیے ایمان کو زر خانے کی بڑی الماری میں گروی رکھا۔ اب باہر نکلے ہیں دوستان قدیم کے بچوں کو پرانی نیاز مندی کا حوالہ دے کر ان کی انگلی پکڑ لی ہے کچھ قدیم احباب ہم خیال کو حصے داری میں ساتھ ملا کر ایک جتھہ بنایا ہے۔ یہ جتھہ ہر ترازو میں پاسنگ ہو گا۔ الیکشن کی سیاسی سرگرمیاں تو بڑے بڑے دنگلوں کو مات کریں گی۔ سب کا حق ہے سب کو موقع میسر آ رہا ہے ہر شخص کا نعرہ ہو گا ہر جماعت کا جھنڈا ہو گا۔ لیکن کسی کو دین اور وطن کے نام پر تکمیل خواہشات نفسانیہ کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ قومی سیاسی مراحل قبل از انتخابات طے ہو گئے ان میں اب نعروں کی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان پر حملہ آور اندرونی گماشتے اور بیرونی سازشی جارحیت پسند ہر طرف سے اپنی شرپسندی کا عملی اظہار کر رہے ہیں سادہ محروم عوام کو اپنا مورچہ بنا کر خیبرپختونخواہ (سرحد) اور بلوچستان میں انہوں نے اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی کا میدان جنگ سجایا ہے۔ فاٹا کے عوام گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے خدائی احسان کے سامنے سر محبت خم کرتے ہیں وہ فرنگی کے ظلم اور ہندو بنیے کے چکر سے خوب واقف ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات ان کی وطن پرستی کی سوچ کو مزید مضبوط سے مضبوط تر کرتے ہیں قبائلی علاقے اور ہنزہ وادی کے لوگ ایک طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کو آئین پاکستان میں قانونی عملدرداری میں لایا جائے خدا کا شکر ہے کہ اسمبلی اور سینٹ میں قوم کے نمائندوں نے کیماڑی سے لے کر لنڈی کوتل تک کے عوام کے دلوں کی آواز کو آئین و قانون کی خلعت پہنائی۔ پھرکے پی کے کی اسمبلی نے پھر غیور کوہستانی پٹھانوں کی حمیت وطنی کا مظاہرہ کیا اور شکر خدا کہ پاکستان کے جغرافیے کو اتحاد قومی کی برکت سے وسعت قانونی نصیب ہوئی۔ وہ لوگ جنہیں پاکستان کی خیر میں اپنی خیر نظر نہیں آتی ہے جن کی زبانیں بسا اوقات ان کے دل کی ترجمانی کرتی ہیں اور وہ کبھی دبے لفظوں میں اور کبھی بے دھڑک پاکستان پر تنقید کرتے ہیں انہیں قوم کے اتحاد سے خوشی نہیں ہوئی۔ مخالفت میں ووٹ دیا اور کچھ ایسے تھے کہ انہوں نے قوم کو متحدہ مجلس قانون کا بائیکاٹ کر دیا۔پھر کے پی کے کی اسمبلی میں جہاں پھر قوم کے نمائندے اپنے فاٹا کے بھائیوں اور گلگت و بلتستان کے ہم وطنوں سے یکجہتی کے لیے انہیں اپنے ساتھ برابر کے حقوق دینے کے لیے اور ان کو اپنا ہم مرتبہ ہم وطن بنانے کے لیے جمع ہوئے تو پاکستان کے کونے کونے میں اس پرمسرت موقع پر خوشی کا سماں تھا اور ہر فرد ہر ادارہ شکر خداوندی ادا کر رہا تھا تو عین لمحہ برکت پر کتنے ہی تشدد پسندوں نے اسمبلی پر ہلہ بول دیا۔ شر اور تشدد وہ کرتے ہیں جن کی سرشت میں انسانیت دوستی نہیںہوتی اور جو دلیل کی زبان سے محروم ہوتے ہیں شر پسندی ان کا شیوہ باطنی ہے جن کے قلوب ملت کی محبت سے خالی ہوتے ہیں کار شر ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو بندگان خدا نہیں‘ عبدالدنیا روالدر اہم ہوتے ہیں۔ پاکستان کا یہ مرحلہ زندگی بہت ہی حیات بخش ہے ہمارے جری اور بہادر قبائلی بھائی اور وادی ہنزہ و گلگت کے باشندگان اب ہمارے برابر کے قانونی حق دار ہیں۔ انہیں آزادی رائے کی قانونی نعمت نصیب ہوئی ان کو ہمارے قومی وسائل میں برابر کا حصہ دار ازروئے آئین و قانونی تسلیم کر لیا گیا۔ وہ بہت محب وطن ہیں ان کا پرانا مطالبہ اب آئینی صورت میں پورا ہو گیا۔ کشمیر ہمارے وطن کی شہ رگ۔ مقبوضہ کشمیر کے جوان پاکستان کی محبت میں جان دیتے ہیں وہ بدبخت انسانیت دشمن بھارتی حکمرانوں اوربھارتی فوجیوں کی غلامی میں زادہ رہنا نہیں چاہتے وہ غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں ایسی موت جس میں پاکستانی پرچم کا کفن نصیب ہو ان کا ایمانی شعور زندہ ہے وہ غیرت دین اور وطن اسلامی کو اپنی ملت اور ذات کی حفاظت کا سب سے بڑا منشور سمجھتے ہیںاور حق تو بالآخر غالب ہی آ کر رہے گا۔ اکھنڈ بھارت کے نعرہ باز اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ سمجھنے والے احمقوں کی دنیا میں ہی نہیں بستے بلکہ انہوں نے سیاست کی آزادی کے نام پر مسلمانان پاک و ہند کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے وہ اپنی منافقانہ سیاسی روش کو کامیاب سیاست گردانتے ہیں وہ پاکستان کے سیاسی نظام میں ہر جگہ اقتدار کی کرسی پر طفیلی بن کر بیٹھتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کے لیے اہل پاکستان کے حلال رزق پر مبنی خزانے سے روپیہ بٹورتے ہیں مگر ان کی تمام کوششیں اپنے دھڑے کو اپنی دورنگی سیاسی روپے کو مضبوط کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ ایک مکرو جبر کے ماحول کو سیاسی فضائے آزادی کا نام دیتے ہیں۔عوام کو ابھارتے ہیں۔ اکساتے ہیں خواب دکھاتے ہیں۔ نعروں میں مگن عوام ان کو دین کے نام پر ووٹ دیتے ہیں اور یہ ترازو کا پاسنگ لیے اسمبلی میں وارد ہوتے ہی خریداروں کی تلاش میں ہر سانس لیتے ہیں، کبھی یہ سرمایہ پرستوں کی کشتی اقتدار میں سوار ہوتے ‘کشتی نے ہچکولے لیے تو کود کر دوسرے گروہ کی کشتی بھاری کر دی اور پھر تبدیلی کے لیے معروضی دلائل ایسے دیتے کہ پوچھنے والے کبھی ان کے کردار کو دیکھتے رہ گئے اور کبھی ان کی دلیل طرازی کے فن قربت پر متعجب ہوتے۔ ابھی نئے انتخابات آ رہے ہیں بہت سے دینی و سیاسی مورچوں پر کھلاڑی اور اناڑی اتر رہے۔ شاید کسی کے ارادے کسی کے وعدے کی گرہ گیر رسی سے بندھے ہوتے ہوں لیکن مولوی اور روایتی مولوی زادوں کی حسب ضرورت کم کم پذیرائی کا امکان ہے البتہ صاحبزادوں کی جگہ مخدوش ہی رہے گی۔ پاکستان کی فکری‘ عملی اور سیاسی مخالفت کرنے والوں کے نصیب میں ذلت ہے۔ بربادی ہے اور حشر میں ان کے لیے بئس المصیر ہے کہ انہوں نے ملت اسلامی کی ترقی و بلندی میں ہمیشہ روڑے اٹکائے ہیں۔ پاکستان زندہ باد ہے‘ پائندہ باد رہے گا منافق ذرا دیر کی روشنی کو کامیابی نہ سمجھیں‘ ابھی طویل اندھیرے اور درجہ خلود کے اندھیرے انہیں گھیرا دینے آ رہے ہیں۔