خوب چرچا ہے کہ وزیراعظم عمران خان چلی کے سابق ڈکیٹیٹر آگسٹو پینوشے Pinochet Augusto جواب ا س دنیا میں نہیں رہے کی طرح میاں نو از شریف کو ہر حال میں واپس لانے کے لیے پر عزم ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب کے مشیر جن کی تعداد ضرورت سے کہیں زیادہ ہے ان کو طفل تسلیاں اور نواز شریف کو واپس لانے کے حوالے سے طرح طرح کی تاویلیں دے رہے ہیں۔ ان کے دلائل یا توان کی کم علمی پر مبنی ہو تے ہیں یا دانستہ طور پر خان صاحب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف۔ واضح رہے کہ پاکستان اور برطانیہ جہاں میاں نواز شریف قر یباً ایک سال سے مقیم ہیں کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کے تحت ایک دوسرے کے شہریوں کوان کے ملک کے حوالے کیا جا سکے۔ اس حقیقت کا خوب علم ہونے کے باوجود نہ جانے کس بنیاد پر وزیراعظم مصر ہیں کہ ہم نواز شریف کو قانون کے کٹہرے میں لا کردم لیں گے۔ نواز شریف کوگزشتہ برس نومبر میں بغرض علاج برطانیہ جانے کی اجازت دی گئی تھی اب اسلام آباد ہائیکورٹ کہتی ہے کہ نواز شریف حکومت اور عدلیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چلے گئے، نواز شریف کا باہر جانا نظام کی تضیحک اور دھوکہ ہے وہ لندن بیٹھ کر حکومت اور عوام پر ہنستا ہو گا۔ جبکہ نواز شریف کیمپ مصر ہے کہ ان کا علاج ابھی مکمل نہیں ہوا اور کورونا وبا کنٹرول ہونے کے بعد ہی ان کا علاج ممکن ہو گا گویا کہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ وزیراعظم اور دیگر حکومتی حلقے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف دھوکے اور فراڈ کے ذریعے سب کو غنچہ دے کر بیرون ملک چلے گئے حالانکہ دھوکہ کھانے والوں میں وزیراعظم کے مشیر برائے صحت اور شوکت خانم ہسپتال کے مدارالمہام ڈاکٹر فیصل سلطان اور پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی شامل ہیں جو مسلسل یہی دہائی دیتی رہیں کہ نواز شریف کی جان کو شدید خطرہ ہے اس لیے بہتر ہے کہ انھیں جانے دیا جائے کیونکہ یہ نہ ہو کہ نواز شریف کو خدانخواستہ کچھ ہو جائے تو سارا ملبہ حکومت پرگرے گا لیکن جانے کے بعد میاں نواز شریف سینٹرل لندن کی سڑکوں پر گھومتے اور ریستورانوں میں کافی پیتے نظر آتے جیسے وہ حکومتی حلقوں کا منہ چڑا رہے ہوں۔ عدلیہ کا بھی سخت اصرار ہے کہ نواز شریف نے انھیں دھو کہ دیا۔ یاروں کو تو اسی وقت دال میں کچھ کالا نظر آ گیا تھا جب میاں نواز شریف قطر ایئرویز کے خصوصی طیارے میں لاہور سے لندن روانہ ہوئے تھے۔ مبصرین کا خیال تھا کہ انھیں سٹریچر پر ڈال کر جہاز میں سوار کرایا جائے گا لیکن بظاہر ہشاش بشاش نواز شریف خود جہاز میں سوار ہوئے اور بیٹھتے ہی تازہ انگور کھا تے نظر آئے۔ نہ کوئی ڈرپ، نہ کو ئی سہارا اور نہ ہی ان کو کوئی دوا دی گئی اور نہ ہی کسی شدید بیماری کے اثرات محسوس ہو رہے تھے۔ اسی وقت ہی وزیراعظم کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ ان کی حکومت کے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے۔ نواز شریف کی میڈیکل ٹیم کا اصرار ہے کہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور ان کا بائی پاس ہونے والا ہے مزید یہ کہ ان کے پلیٹلیس کم ہونے کی شکایت ہے وہ ذیابیطس کے بھی مریض ہیں اور انھیں علاج کی شدید ضرورت ہے لیکن زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ نواز شریف کی مصروفیات ان کے اس بیانیے سے لگا نہیں کھاتیں کہ وہ شدید بیمار ہیں۔ کافی پینے اور دیگر مصروفیا ت کے علا وہ اب وہ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لے رہے ہیں، اس امر کے باوجود کہ تکنیکی طور پر وہ نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں انھوں نے اے پی سی کے موقع پر ایک گھنٹہ طویل خطاب میں حکومت اور مقتدر اداروں کو خوب رگڑا لگایا۔ بدھ کو نواز شریف نے ویڈیو لنک سے مسلم لیگ (ن) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے دوسرا اور جمعرات کو پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے تیسرا خطاب کیا جن میں انھوں نے کہا اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی کہ عدالتو ں پر دباؤ ہے، عدلیہ سے مرضی کے فیصلے کرائے جاتے ہیں، پارلیمنٹ کو کٹھ پتلی بنا دیا گیا۔ انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلا می میں آ گئے۔ پارلیمنٹ کو ربڑ سٹمپ اور کٹھ پتلی بنا دیا گیا۔ عزت نہ ہو تو کون سی سیاست، کیسی سیاست؟۔ یہ عجیب صورتحا ل ہے کہ نواز شریف عد التوں اور حکومت کے رونے دھونے کے باوجود ا ب ان کی دسترس سے باہر ہیں۔ میاں صاحب کی تقریروں سے لگتا ہے کہ وہ زیادہ رجائیت پسند ی کا شکار ہیں ان کے مطابق حکومت چند مہینوں یا چند ہفتوں کی مار ہے اور جیسے ہی کال دی جائے گی لوگ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں گے اور عمران خان کی حکومت اور ان کے پشت پناہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف جب تک پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو گا لی نہ دے لیں ان کی روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ انھوں نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ آصف زرداری کے بارے میں میری رائے تبدیل نہیں ہوئی، مجھے ان پر یقین نہیں ہے آج بھی ان پر تحفظات ہیں۔ حالانکہ بظاہر میاں نواز شریف اور آصف زرداری ایک ہی صفحے پر ہیں لیکن خواجہ آصف کا تازہ واکھیان کہ زرداری پر تحفظات ہیں ان کے بارے میں رائے نہیں بدلی اس کے جواب میں نواز شریف کو اپنی پارٹی کے سینئر لیڈر سے اختلاف کرتے ہوا مجبوراً کہنا پڑا کہ ایسی کوئی بات نہیں، زرداری پی ڈی ایم کا حصہ ہیں میں ان کا دلی احترام کرتا ہوں۔ ابھی تو ابتدائے عشق ہے، آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کے پس منظر میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی بیل کیسے منڈھے چڑھ سکتی ہے۔ اگرچہ میاں صاحب کے جوابی بیان کے بعد خواجہ صاحب کوخود سوچنا چاہیے کہ وہ اس پارٹی میں کیا کر رہے ہیں جس کا سربراہ ان کے بیانیے سے اختلاف رکھتاہے۔ اس صورتحال میں تو خواجہ آصف کو خو د ہی گھر چلے جانا چاہیے تھا بصورت دیگر پارٹی کو انھیں فارغ کر دینا چاہیے لیکن شاید اب میاں صاحب اس پوزیشن میں نہیں ہیں لہذا بہتر ہو گا کہ میاں صا حب کو اپنے سینئر پارٹی رہنماؤں سے بات چیت کرکے نہ صرف ان کے تحفظات دور کرنے چاہئیں بلکہ ان کو اس قسم کے پارٹی دشمن بیانات سے باز رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ میاں صاحب جو پہلے ہی مشکلات میں گھر ے ہوئے ہیں خواجہ صاحب جیسے پورس کے ہاتھیوں سے بچیں کیونکہ یہ مسلم لیگ (ن) کے لیے تحریک انصاف سے بڑا خطرہ ثابت ہونگے۔