وبا کے سائے تلے یہ ہمارے دوسری عید الفطر تھی۔اس بارمگر دکھ اور اداسی کے سائے پہلے سے بہت گہرے تھے۔ گزشتہ عید الفطر بھی اگرچہ لاک ڈاؤن میں گزری مگر اس وقت دل میں یہ احساس تھا کہ بس چند ہفتوں کی بات ہے حالات بہتر ہو جائیں گے اور پھر ہماری عیدیں پہلے جیسی ملاقاتوں سے بھری ہوئی اور خوشیوں سے سجی ہوئی ہوں گی۔ اپنوں کی دید سے روشن عید کا دن پھر سے سنہرا ہوگا اور لاک ڈاؤن میں گزری ہوئی یہ بے رنگ عید بس ایک ناخوشگوار یاد بن کے رہ جائے گی۔ عید الفطر شکرانے کا دن ہے ۔اللہ تعالی کی طرف سے روزہ داروں کے لیے اور ان کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں، بے شک یہ دن ہم نے شکر میں گزارا لیکن اس کے باوجود حالات پر ایک اداسی کی دبیز تہہ چھائی رہی۔ دور و نزدیک سے و با کی جکڑ میں آنے والوں کی تکلیف دہ خبروں کا وہی ہنگام رہا۔ پورا رمضان کیسے کیسے پیارے لوگوں کے چلے جانے کی خبریں آتی رہیں۔ ان حالات میں عید جو میل ملاقات اور خوشی کا دن ہے خودبخود دل کو ایک گہرے ملال سے دوچار کرتا رہا کہ کتنے گھروں میں ان کے پیارے ان سے سے بچھڑ گئے ،ان غمزدہ آنگنوں میں عید کیسی سوگوار گزری ہوگی ۔ مجھے اپنی پیاری امی جان کی وفات کے بعد آنے والی پہلی عید یاد ہے۔ امی جان کے دم قدم سے رمضان اور عید کی رونقیں تھیں وہ گھر کا مرکز و محور تھیں۔ عید تہوار وہ بڑے اہتمام سے منایاکرتیں۔ اس سے جڑی ہر تیاری بڑے پرجوش انداز میں انداز میں کرتیں ۔ رمضان المبارک میں سحری اور افطاری کے اوقات میں ان کے بابرکت وجود کے دم سے پھوٹتی ہوئی رونقیں پورے گھر میں چہل پہل کر دیتی۔ وہ جب دنیا سے رخصت ہوئیں تو ایک آدھ ہفتے کے بعد رمضان المبارک کا آغاز ہو گیا ۔ گھر کا مرکز اور محور اپنی جگہ پر نہ رہے تو گھر کی ہر شے ہل جاتی ہے ۔ اس گھر کے درودیوار اجنبی ہوجاتے ہیں۔ باورچی خانے کی الماریوں میں پڑے ہوئے پتیلے اور دیگچیاں، ریک میں رکھے برتن ،چولہا چونکا سب روٹھ جاتے ہیں۔ ایسے میں سحری اور افطاری کے اوقات میں بوجھل ویرانی دل کو چیر کے رکھ دیتی۔پیاری ماں سے تازہ جدائی کے دن تھے ایک پہر سے دوسرے پہر کا وقت کاٹتے زمانے گزر جاتے۔ گزشتہ عید کئی گھروں میں ایسی ہی سوگوار کیفیت میں گزری ہے ۔ یقین جانیے اس روز میں نے تمام اجنبی اور شناسا لوگوں کو یاد کیا جنہیں موت نے اوجھل کردیا ہے۔کہیں کہیں تو وبا نے ایسی قیامت ڈھائی کہ ایک گھر کے تین تین مکین اپنے ساتھ عدم کے اس پار لے گئی۔ بے اختیار ذہن میں جواں سال شاعرہ مرحومہ کرن وقار کی ننھی معصوم بچی کا خیال آیا جو اب اپنے بوڑھے غمزدہ نانا کے ساتھ ہے کرن کے والد نے اس وبا میں اپنی بیوی، جوان بیٹے اور بیٹی کو کھو دیا ہے ۔ یہ تو ایک گھر کی کہانی ہے وطن عزیز میں ایسے کئی گھر ملال میں ڈوبے ہوئے ہیں جہاں عید آئی اور اشکبار گزری۔ اس اداسی میں فلسطین کے مسلمانوں پر بیتنے والی قیامت نے اور بھی قیامت خیز کردیا۔ماہ رمضان کی سب سے مبارک رات ستائیسویں شب جب غزہ کے مسلمانوں پر فلسطینی بمبار طیاروں نے بمباری کی ، بسے بسائے گھروں کو اجاڑا اور بارود کے گھناؤنے کھیل نے غزہ کو کسی جہنم میں دھکیل دیا۔بمباری کاسلسلہ تاحال جاری ہے۔ فلسطینی صحافی ولید محمود غزہ کے رہائشی ہیں۔محمود درویش نے اپنی شاعری کے ذریعے فلسطین کے دکھوں کو بیان کیا اور ولید محمود سوشل میڈیا پر اپنی خبروں اور پوسٹوں کے ذریعے اہل عالم اور اہل اسلام کو غزہ پر بیتنے والی قیامت سے آگاہ کرنے میں مصروف ہیں۔ انکی پوسٹیں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ تازہ ترین ظلم کی داستان پر محمود کی پوسٹیں آنسوؤں کی طرح تواتر سے گرتی رہیں اور اس میں لکھی ہوئی یہودیوں کے بدترین ظلم و جبر کی خبریں ماتمی چیخوں کی طرح اہل درد کے سینوں پر خراشیں ڈالتی رہیں۔ مگر کئی روز سے تمام انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں خاموش ہیں۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے آدھ موئے وجود نے کوئی جنبش نہیں کی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ہفتہ گزرنے کے بعداجلاس بلانے کا اب ہوش آیا ہے جب درجنوں فلسطینی بچے شہید ہوگئے اور سینکڑوں فلسطینی بچے زخموں سے چور چور ہسپتالوں میں پڑے ہیں ۔ ظلم کا یہ گھناؤنا رقص عید کے موقع پر اور بھی شدت پکڑ گیا۔ ولید محمود کی ایک پوسٹ دیکھئے: While over billions muslims around the world are preparing chocolate and the sweet to celebrate Eid tomorrow. We in Gaza prepare the shrouds. اب جبکہ دنیا کے ارب سے زائد مسلمان مٹھائی، چاکلیٹس خریداری میں مصروف ہیں کہ کل عید منا سکیں ،غزہ میں ہم کفن تیار کررہے ہیں ۔ ایک اور پوسٹ میں ولید محمود نے لکھا کہ غزہ میں میری بہن کے گھر کے قریب بہت شدید قسم کی بمباری ہورہی ہے ۔اس کے بچے ڈر کے چیخیں مارتے ہیں تو وہ انہیں ان الفاظ میں بہلاتی ہے عید کی خوشی میں باہر فائر ورکس ہورہا ہے۔ پچھلے دو چار دنوں میں پوری دنیا کے مسلمان عید الفطر منانے میں مصروف رہے ہیں اور غزہ کے بچے یہودیوں کے ہاتھوں مرتے رہے۔ ولید محمود کی پوسٹیں اب مجھ سے دیکھی نہیں جاتیں، چھوٹے چھوٹے بچوں کی کفن میں لپٹی ہوئی ننھی لاشیں ،کفن لہو میں بھیگے ہوئے۔ ہائے کس دل سے دیکھیں اور کس بے بسی سے اس ظلم کا نظارہ کریں ۔ ایک جانب یہودیوں کا ظلم اپنی انتہا سے آگے نکل گیا ۔ دوسری طرف صرف اپنی بے حسی اور اپنے گونگے پن میں ستاون اسلامی ملکوں کے رہنما لاجواب نہیں۔ ستاون اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کسی بے حسی کی قبر میں پڑی ہے۔ اور یہ اسلامی ملکوں کے نام نہاد رہنما سب کے سب بکاؤ مال ہیں ان کو رہنما کہنا بھی رہنمائی کی توہین ہے۔ وہ جو بچوں کے کفن میں لپٹے ہوئے لہو لہان لاشوں پر نہیں بولتے ان کے وجود پر بھی فاتحہ پڑھ لینی چائیے۔ بس عید گزشتہ تو اسی طرح ملال دکھ اور اداسی کی سی کیفیت میں گزری سو آج کالم نہیں بس اداسی تحریر کی ہے۔