وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے اسے کہو کہ ہم اس کے بغیر جی لیں گے یہ غم اگرچہ زیادہ ہے آدمی کے لئے میرے پیارے اور معزز قارئین: آپ ان شعروں کو صرف رومانس میں رکھ کرنہ دیکھیں بلکہ عام تناظر میں بھی آپ کو ان کے معنی ملیں گے۔ اگرچہ معنی معنیٔ دیریاب ہوتے ہیں یعنی وہ ہم پر دیر سے کھلتے ہیں۔ بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی شخص بھی ناگزیر نہیں ہوتا شیکسپئر نے کہا تھا کہ ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ صورت حال کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق دیکھنا چاہیے۔ جب کوئی کسی کو ناگزیر جانتا ہے تو اس کی اپنی ناگزیر وجوہات ہوتی ہیں جس کی تہہ میں مفادات اور مصلحتیں ہوتی ہیں وگرنہ زندگی پانی کے بہائو کی طرح ہے چاہے اس میں جتنے مرضی طوفان آئیں اور بھنور پڑیں۔ مگر یہ سیل رواں رکتا نہیں ہے دریا کی طغیانیاں بھی اس کا حصہ ہیں: دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے اگر آپ ذرا سا غور کریں تو یہ اجتماعی سوچ کی آئینہ دار ہے آپ کیا سمجھتے ہیں۔ نہیں جناب ایسا نہیں ہے سوالات معاشرے میں جنم لے چکے تھے اور ایک لاوا پک رہا تھا لوگوں کو شعور سے آشنائی ہو چکی ہے یہ مصرع الہامی لگتا ہے کہ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اور یہ بھی کہ آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ ایسی صورت میں جواب کہیں سے بھی آسکتا ہے اب کے جواب درست جگہ سے آیا اور اصلی تبدیلی بھی اس کی نظر آئی کہ کسی نے چیف کے حوالے سوموٹو لیا مگر یہ نادرست ہرگز نہیں۔ جو سوال عدلیہ نے کیے ہیں یہ عام لوگوں کے سوالات ہیں۔ آپ اس بات کو چھوڑ دیں۔ عام سا ذہن رکھنے والا شخص بھی سوچ رہا تھا کہ کیا ایک شخص اچانک ناگزیر کیوں ہو گیا۔ کیا پیچھے آنے والے لوگ اس قابل نہیں کہ ذمہ داریاں نبھا سکیں۔سرکاری افسران کی تو ٹریننگ ہی انتہائی ٹف اور سائنٹیفک ہوتی ہے۔ ایک نہیں دو نہیں تین چار لوگ جگہ لینے کے لئے تیار ہوتے ہیں کہ وہ صلاحیت اور لیاقت رکھتے ہیں۔ ترقی کا یہ تسلسل روک دینا دوسروں کی حلق تلفی بھی ہے اور ایک نظام عمل میں رکاوٹ بھی۔ معاملات کسی ایک شخص سے وابستہ کرنا بچوں جیسی سوچ ہے بلکہ مذاق ہے۔ حکومت کے اس فعل نے دو کو مشکوک کر دیا۔ آپ کس کس کی زبان بندی کریں گے سب سے پہلا تاثر یہی ابھرا کہ جولائے تھے ان کو جانے نہیں دیا۔ گویا یہ سب کچھ طے تھا۔ موجودہ صورت حال میں تو ان کو بالکل ایک طرف ہو جانا چاہیے۔ خان صاحب کے لئے ذوق کا شعر لکھ سکتا ہوں: کم ہونگے اس بساط پہ ہم سے قمار باز جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے پرویز مشرف والے معاملہ میں حکومت کا اقدام اس کی نیت کی چغلی کھا رہا ہے۔ وزیر قانون فروغ نسیم تو پہلے ہی مشکوک ہیں۔ اب وہ مستعفی ہو کر کیس لڑنے جا رہے ہیں اس پر شیخ رشید کی باتیں لوگوں کو غصہ چڑھا رہی ہیں کہ کیا یہ ایک ہی شخص آپ کا ترجمان رہ گیا ؟جسے اتنے بڑے حادثہ کے بعد بھی توفیق نہ ہو سکی کہ مستعفی ہو جائے۔ ویسے تو خیر اس کی مٹی وہیں کی ہے۔ وزیر اعظم غیر معمولی حالات کی بات کرتے ہیں تو وہ بتائیں اس میں کیا بہتری آئی۔ مسئلہ کشمیر پہلے آپ نے دھرنے پہ ڈالا اور اب آپ اسے تقریباً فراموش کر چکے۔ سارے معاملات دگرگوں ہیں۔ معیشت کا ستیاناس ہو چکا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ سٹیٹ بنک بھی خسارے میں ہے۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ خاں صاحب اپوزیشن جماعتوں کے بارے میں غیر سنجیدہ ردعمل نے لوگوں کو کچھ زیادہ ہی حیران کر دیا۔ انہیں خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ وہی کہ شراب سیخ پر ڈالی کباب شیشے میں۔ ہمیں تو اب تک یہ ہی معلوم نہیں ہوسکا کہ خان صاحب آئے دن عثمان بزدار کے ساتھ ون ٹو ون میٹنگ کرتے ہیں اور ان کے راز و نیاز کیا ہیں۔ مہنگائی تک ان سے کنٹرول نہیں ہو سکی۔لوگ تو معصوم ہیں۔ صرف سبزیوں کو رو رہے ہیں کہ بیچارے اس عذاب ہی سے نہیں نکلتے جو لوگ باقی ماندہ خریداری کرتے ہیں ان سے بھی پوچھیے۔ آپ یقین کریں کہ میں سردیوں کے لئے بنیان لینے گیا تو وہ ساڑھے تین صد روپے کی جراب دو صد روپے‘ میرے تو ہوش اڑ گئے۔ مگر اس سے خاں صاحب یا ان کے ان ساتھیوں کو کیا ،جو منہ پھاڑ کر جھوٹ بولتے رہتے ہیں اور ہر بری بے سری بات پر سنگت کرتے ہیں۔ ایک استاد کا شعر اب آ کر کھلا: زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے یہ بھی کہنے کی بات ہے کہ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ ہاں خودکشی کی صورت میں یہ سچ ہو سکتا ہے۔ آپ یقین کریں کہ عام آدمی اتنا تنگ آ چکا ہے کہ وہ بات بات پر لڑنے جھگڑنے پر اتر آتا ہے مگر خوف ناک بات یہ ہے کہ حکومت عوام کے عذاب سے لاتعلق ہے۔ اسمبلی کا ہنگامی اجلاس مہنگائی یا مسائل پر کبھی نہیں ہو گا۔ حکومت اصل میں پھنستی جا رہی ہے۔ خاص طور پر فارن فنڈنگ کیس نہایت دلچسپ ہے۔ خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔ پہلا مصرع تو آپ کو آتا ہی ہو گا الجھا ہے پائوں یار کا زلف دراز میں‘ چور چور کا شور مچانے الے کی بکل میں بھی چور محسوس ہوتا ہے۔ کہیں غالب والا معاملہ تو نہیں: قرض کی پیتے تھے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن رفتہ رفتہ یہی لگتا ہے کہ جن پہ تکیا تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ کچھ امیدیں بابر اعوان سے باندھی گئی ہیں جو اتنے سمجھدار ہیں کہ انہیں زرداری بھی استعمال نہیں کر سکا۔وقت آنے پر وہ مکھن سے بال کی طرح نکل جائیں گے۔ ریت ان کے ہاتھ سے پھسل رہی ہے۔ زمین کو بھی قرار نہیں اور آسمان بھی گھوم رہا ہے ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ رہے ہیں چلیے اب اجازت دیجیے: جاگتی سی آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے ٭٭٭٭٭