ملک کی فضاؤں میں سانحہ مستونگ کی غمزدہ مہک ابھی تک موجود ہے۔ یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ایک بیگناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ مستونگ میں تو 133 انسان لقمہ اجل بنے۔ بات صرف ایک سردار کی نہیں ہے۔ بلوچ معاشرے میں سردار کی بہت بڑی حیثیت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کا سسٹم بھی سرداروں کو بڑی عزت دیتا ہے۔ نواب زادہ سراج رئیسانی کی نماز جنازہ میں آرمی چیف کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ملکی نظام میں سرداروں کو خاص اہمیت سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر میں ان 132 انسانوں کی لاشوں کے درمیاں کھڑا ہوں جن پر نہ تو سرکاری پھول نچھاور کیے گئے اور نہ ان کی تدفین کے موقعے پر گولے فائر کیے گئے اور نہ ان کے جنازے ملک کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کیے گئے۔ وہ 132 انسان اسی دھرتی کی پیدائش تھے۔ ان لوگوں کا اس ملک پر اتنا ہی حق تھا جتنا کسی سردار کا۔وہ لوگ جو انتخابی مہم کے دوران بم دھماکے کا شکار ہوئے۔ ان کو اگر ’’شہدائے جمہوریت‘‘ قرار دیا جائے تو اس میں کس کی شان میں گستاخی ہوگی؟ اگر راولپنڈی میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو دہشت گردی کا نشانہ بنتی ہیں تو ان کے نام سے ’’شہید ‘‘ کا لفظ ایک اعزاز کی طرح جوڑاجاتا ہے ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نواب زادہ سراج رئیسانی کے مزار کے کتبے پر بھی ’’شہید‘‘ لفظ کندہ کروایا جائے گا اور وہ ہونا بھی چاہئیے۔ کیوں کہ وہ شہید ہیں ۔ مگر ہم ان 132 شہداء کی بات کر رہے ہیں جن کے نام بھی میڈیا پر نہیں آئے۔ وہ لوگ جو مستونگ کے آس پاس دیہاتوں سے آئے تھے۔ ان شہیدوں میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ بلوچستان کے پس ماندہ سرزمین کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات ہیں۔ اس حوالے سے میں احتجاج کر رہا ہوں کہ جو کچھ میڈیا میں شائع یا نشر ہوا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ مستونگ سانحے کا دکھ ناقابل بیان ہے۔مستونگ بم دھماکہ کے بعد جن دیہاتوں میں شہداء کے لاشے پہنچے ہے؛ ان میں ایک گاؤں ’’دشت‘‘ بھی ہے۔ اس گاؤں کی آبادی دو سو انسانوں سے زیادہ نہیں ہے۔ ان دوسو انسانوں میں بچے بوڑھے سب شامل ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ صرف دشت نامی اس گاؤں میں دس لاشے لائے گئے۔ اگر کسی بستی کے پانچ فیصد لوگ قتل ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑا سانحہ ہوتا ہے۔ دشت نامی بستی کے پانچ فیصد لوگ قتل کیے گئے۔ اس گاؤں کا سب سے بدقسمت شخص عبدالخالق ہے۔ اس عبد الخالق کے گھر میں پانچ لاشے لائے گئے۔ ان لاشوں میں تین اس کے بیٹے اور دو اس کے بھتیجے تھے۔ اگر ایک گھر کے پانج نوجوان اچانک چلے جائیں تو کیا بچتا ہے اس گھر میں؟ وہ گھر اس وقت حقیقی طور پر اس گاؤں کے نام پر پورا اترتا ہے۔ وہ گھر نہیں وہ ’’دشت ‘‘ ہے۔ وہ دشت جس کے بارے میں مرزا غالب نے لکھا تھا : ’’کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا‘‘ وہ گاؤں جس کا نام ہی دشت تھا اب اس دشت میں ایک گھر دشت کی روح بنا ہوا ہے۔وہ گاؤں جو بلوچستان کے اکثر دیہاتوں کی طرح زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ہم لوگ کس قدر مچل جاتے ہیں اگر کچھ گھنٹوں کے لیے موبائل فون کا نیٹ ورک بند کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ کس قدر غصے کا اظہار کرتے ہیں اگر انٹرنیٹ بار بار ڈس کنیکٹ ہوجاتا ہے۔ ہم کتنا برا محسوس کرتے ہیں اگر علاقے میں چار پانچ گھنٹوں کے لیے بجلی بند ہوجائے ۔ مگر وہ لوگ برسوں سے بجلی اور گیس کے بغیر جیتے ہیں۔ حالانکہ ان کی سرزمین میں گیس کے ذخائر ہیں اور ان ذخائر سے اس ملک میں نہ صرف ہمارے گھر بلکہ سرمائے داروں کے کارخانے چلتے ہیں مگر اس گیس سے اہلیان بلوچستان کے چولہے نہیں جلتے۔انہیں ہر صبح اور ہر شام پہاڑی وادیوں میں لکڑیوں کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ پھر وہ لکڑیاں جلائی جاتی ہیں اور ان کے دھوئیں میں آٹے کی ایک موٹی روٹی پکتی ہے ۔ وہ روٹی پیاز اور مرچ سے کھائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے غریب لوگوں کو پانی میسر نہیں۔ وہ دور سے گدھوں پر پانی کے ڈرم رکھ کر لاتے ہیں اور چھلکتے ہوئے ڈرموں کے ساتھ ایک بے زبان جانور کا مقدر بھی اپنے مالکان کی طرح نہیں بدلا۔ اب بلوچستان کے لوگوں نے سولر شیٹس کو استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ انہوں نے تاریک رات میں روشنی کا جو تھوڑا سا اہتمام کیا ہے اس میں ان کی اپنی کاوش ہے۔ کسی وفاقی اور کسی صوبائی حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ وہ لوگ سرداری نظام کے ذریعے اس قدر دبائے گئے ہیں انہیں اپنے حقوق کے بارے میں بھی احساس نہیں۔ اگر انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں تو وہ اس بات پر کسی حکومت پر ناراض بھی نہیں ہے۔ وہ ہر بات کے لیے اپنے سردار کے پاس جاتے ہیں اور سردار انہیں اپنے موڈ کے مطابق جواب دیتا ہے اور وہ جواب ان کے لیے حتمی ہوتا ہے۔ میں بلوچستان کے کچھ شہروں میں پیدا ہونے والی اس مڈل کلاس کی بات نہیں کر رہا جس نے اب بولنا شروع کیا ہے۔ میں ان لاکھوں انسانوں کا تذکرہ کر رہا ہوں جو نسل در نسل خاموش رہتے آئے ہیں۔ وہ تو اپنے جانوروں سے بھی کم بولتے ہیں۔ان کے کتے تھوڑا سا خطرہ محسوس کرنے پر پوری قوت سے بھونکتے ہیں۔ ان کے اونٹ سرد راتوں میں مست ہوکر آوازیں نکالتے ہیں۔ ان کے گدھے بھی اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ مگر بلوچستان کے غریب لوگ اپنے پہاڑی صوبے کے پتھروں کی طرح خاموش رہتے ہیں۔ انہوں نے ظلم اور جبر کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ اس لیے وہ اپنے حقوق کے خاطر آواز بلند نہیں کرتے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ دو سو افراد پر مشتمل ایک گاؤں کے دس نوجوان قتل ہوجائیں اور وہ گاؤں خاموش رہے۔ وہ گاؤں جنازے روڈ پر رکھ کر کوئی احتجاج نہ کرے۔ وہ گاؤں میڈیا کے معرفت صوبے اور ملک کی اہم شخصیات کو اپنے گاؤں آنے کے لیے مجبور نہ کرے۔ وہ گاؤں اس طرح خاموش رہے جس طرح دشت خاموش ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہر دشت میں درد کی ایک ناقابل بیان پکار بھی ہوتی ہے۔ مستونگ کے اس گاؤں میں صرف یہ المیہ نہیں ہوا کہ گاؤں کے دس نوجوانوں کی لاشیں ایک قطار میں رکھی گئیں۔ جب ایک نوجوان کی لاش بھی گاؤں میں آتی ہے تو وہ درد کا ناقابل فراموش منظر ہوتا ہے۔ اس منظر کو الفاظ میں محفوظ کرتے ہوئے پروین شاکر نے لکھا تھا: ’’آنسوؤں میں کٹ کٹ کر خواب کتنے گرتے ہیں ایک جوان کی میت آ رہی ہے گاؤں میں‘‘ مگر اس گاؤں میں ایک وقت دس خوبصورت اور وجیہہ جوانوں کے لاشے آئے اور اس گاؤں کے بزرگوں اور ماؤں بہنوں نے وہ درد اپنے تنہا دل کے ساتھ برداشت کیا۔ اس المناک واقعے کا اختتام اس بات پر نہیں ہے کہ وہ سفید کفن میں ملبوس دس نوجوان سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے یا نہیں ۔ وہ لوگ تو خاند بدوش زندگی گذارنے والے تھے۔ وہ ایسے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے بچوں اور اپنے مویشیوں کے ساتھ مستقل سفر کرتے ہیں۔ وہ بادلوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ جس وادی میں بارش برستی ہے وہ اس میں پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے پورا بلوچستان ان بلوچ خانہ بدوشوں کا ہے اور حقیقت میں رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے کسی ٹکڑے پر ان خانہ بدوشوں کا قانونی اور سماجی حق نہیں ہے۔ اس لیے جب اس قبیلے کے لوگوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو مقامی قبرستان میں دفن کرنے کی کوشش کی تو مقامی لوگ ان سے الجھ پڑے۔ ان سے کہا گیا کہ یہ ہمارا قبرستان ہے۔ تم لوگوں کو اس قبرستان میں اپنے مردے دفن کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس غمزدہ قبیلے نے اپنے بچوں کی لاشوں کو پھر اٹھایا اور دشت نامی گاؤں سے دور ویرانے میں دفنایا۔وہ جو شہداء جمہوریت تھے۔ انہیں اپنے دشت میں بھی سکون کے ساتھ ابدی نیند کا حق نہیں ملا۔ کیا غالب کی روح وقت کی قید سے آزاد ہوکر وہاں سے گذری تھی؟ اگر نہیں تو پھر انہوں نے یہ اشعار کس طرح لکھے؟ ’’پھر مجھے دیدہ تر یاد آیا دل جگر تشنۂ فریاد آیا دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز پھر تیرا وقت سفر یاد آیا آہ وہ جرأت فریاد کہاں دل سے تنگ آکے‘ جگر یاد آیا کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا‘‘