دہشت گردوں کی پاک فوج اور ایف سی کے دستوں پر فائرنگ کے نتیجے میں دس پاکستانی سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے ہیں۔ دونوں افسوسناک واقعات شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں پیش آئے ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج پٹرولنگ دستہ پر افغانستان سرحد سے فائرنگ کی گئی۔ جبکہ بلوچستان میں شہید ہونے والے سکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ کامیاب دورہ امریکہ دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ اس لیے وہ پاکستانی فورس پر حملے کر کے ا نہیں اشتعال دلانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو اشتعال دلا کر جوابی حملے کے لئے اکسایا جائے تاکہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے بعد جو ثمرات امن کی صورت میں اس خطے کو ملنے ہیں وہ ان سے محروم ہو جائے۔ افغان طالبان کے وزیر اعظم عمران خان سے ملنے کے اعلان کے بعد ہمسایہ ملک افغانستان میں ایک بھونچال سا آ گیا ہے۔ در حقیقت افغان طالبان اشرف غنی حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی گورنمنٹ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ امریکی کوششوں کے باوجود افغان طالبان اشرف غنی سے ملاقات تو دور کی بات ہے اس کے کسی وفد کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغان طالبان پاکستان کے قریب آنے کا اعلان کرتے ہیں تو سرحد پار پاکستان مخالف قوتیں خون ریزی پر اتر آتی ہیں۔ افغانستان کے پہلو میں واقع ہونے کے باعث خیبر پختونخواہ براہ راست دہشت گردی کی زد میں ہے۔ نائن الیون کے بعد سے لے کر اب تک پورے پاکستان میں عمومی اور خیبر پی کے میں خصوصی طور پر ہزاروں افراد اس پرائی جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے اور سمگلنگ کے خاتمے کے لئے افغانستان کے ساتھ 2344کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تو افغان حکومت اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ حالانکہ پاکستان صرف اپنے بارڈر کو محفوظ بنانا چاہتا ہے کیونکہ بھارتی ایجنسی( را) اور افغان ایجنسی این ڈی ایس کے گٹھ جوڑ سے دہشت گرد گروہوں کی شکل میں پاکستان کے امن کو غارت کرتے تھے، اسی بنا پر پاکستان نے اڑھائی ہزار کلو میٹر طویل سرحد کے ساتھ ساتھ 233قلعے تعمیر کئے جبکہ 144قلعوں پر کام جاری ہے جن کا مقصد بلند اور محفوظ مقام پر بیٹھ کر دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ہے ،اس طرح دہشت گردوں کی سرحد پر تخریبی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے باڑ نصب کی گئی۔ یہ بات کابل کے محلات میں بیٹھے سازشیوں کو ناگوار گزری کیونکہ باڑ کی تنصیب اور قلعوں کی تعمیر کے بعد وہ اپنے مذموم مقاصد کو آزادانہ طور پر پروان نہیں چڑھا سکتے تھے، لہٰذا انہوں نے پاک فوج کے جوانوں پر حملے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ افغان سرحد پر مانیٹرنگ کے سخت اقدامات کے بعد اب صرف وہی لوگ پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں جن کے پاس قانونی سفری دستاویزات ہونگی۔ پاک فوج سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے اپنے جوان دھرتی ماں پر قربان کر رہی ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں کی بدولت ماضی کی نسبت ملک میں امن قائم ہو چکا ہے، ملکی داخلی صورتحال کافی بہتر ہے، اب پاک فوج کو سرحدوں پر کڑی نگرانی کرنی چاہیے۔ سرحدوں پر پاک فوج کی پٹرولنگ کا ایسا میکنزم تشکیل دیا جائے کہ گشت پر مامور نوجوان دشمن کی آنکھوں سے اوجھل رہیںیا پھر قلعوں کی تعمیر میں اضافہ کیا جائے تاکہ جوان قلعوں میں بیٹھ کر دشمن پر نظر رکھیں۔ بارڈر پر باڑ کی تنصیب سے دشمن عناصر کے ساتھ ساتھ سمگلروں کو بھی کافی پریشانی کا سامنا ہے، سمگلنگ کا کام ٹھپ ہونے پر وہ بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، اس لیے دشمن عناصر کے ساتھ ساتھ ان پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں سوائے افغان طالبان کے اڑھائی سالہ دور اقتدار سے اس سرحد سے ہوا کا ٹھنڈا جھونکا کبھی نہیں آیا۔ حالانکہ ہم نے 30لاکھ سے زائد افغانیوں کی مہمان نواز کی اور اب بھی افغان مہاجرین کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے لیکن دہشت گرد اور تخریب کار عناصر دونوں ممالک کے مابین کشیدگی پھیلا کر دوریاں پیدا کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں افغان صدر کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا چاہیے تاکہ تعلقات میں کسی قسم کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ بلوچستان کے حالات کی خرابی کا ذمہ دار سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف ہے ،جس نے وہاں پر نفرتوں کے بیج بو کر پھول اگانے کی ناکام کوشش کی۔ پاک فوج نے بلوچوں کے دکھوں کا مداوا کیا، انہیں پہاڑوں سے نیچے اتار کر ایک باوقار شہری بنانے کی کوشش کی لیکن چند تخریب کار گروہ ابھی بھی بیرونی دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔گزشتہ روز بھی ایف سی اہلکاروں پر کومبنگ آپریشن کے دوران حملہ کیا گیا، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بزدلانہ حملے دشمن قوتوں کے دم توڑنے کی علامت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو سرحدوں پر نگرانی سخت کرنی چاہیے اور ملک بھر میں آپریشن ردالفساد کو تیز کیا جائے جو کالعدم تنظیمیں نام بدل کر کام کر رہی ہیں ان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے۔ بڑے اور چھوٹے شہروں میں مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھی جائے۔ دراصل جب سے ملک کے اندرونی حالات قدرے پر سکون ہوئے ہیں، پولیس نے سرچ آپریشن کرنا چھوڑ دیے ہیں، جس کے باعث دہشت گرد آزادانہ طور پر گھومتے پھرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اب عالمی برادری کو آگے بڑھنا چاہیے اور پاکستان کی اس سلسلے میں مدد کرنی چاہیے۔ عالمی برادری دہشت گردوں کے سرپرست افغانستان اور بھارت شٹ اپ کال دے یہ دونوں ممالک افغان طالبان اور امریکہ کے مابین جاری مذاکرات کو ناکام بنانے کے درپے ہیںاور خطے میں حالات کو خراب کر کے اس کا ملبہ افغان طالبان پر ڈالنے کی کوششوں میں ہیں، امریکہ اس کا سنجیدگی سے نوٹس لے۔