سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی تشریح کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مذہبی، نظریاتی، سیاسی مقاصد کیلئے پرتشدد کارروائیاں، ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے دہشت گردی ہے۔ صحافیوں، تاجروں، عوام اور سماجی شعبوں پر منصوبہ بندی سے حملے اور خوف و ہراس پھیلانا بھی دہشت گردی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ ذاتی دشمنی یا عناد میں کسی کی جان لینا، جلائو گھیرائو کرنا، بھتہ خوری جیسے جرائم دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے دہشت گردی کا لفظ عام آدمی کی بول چال میں داخل ہو چکا ہے اور بہت سے ایسے جرائم کو بھی دہشت گردی کی زد میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے جو واقعاتی، قانونی اور آئینی اعتبار سے دہشت گردی کی ذیل میں نہیں آتے۔ اس لئے عدالت عظمیٰ نے بروقت وضاحت کرکے بہت سے قانونی آئینی الجھائو دور کر دیئے ہیں ،کیونکہ بسااوقات ذاتی عناد اورجھگڑوں سے متعلقہ مقدمات کو دہشت گردی کے زمرے میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کئی فوری نوعیت کے سنگین مقدمات کا فیصلہ دہشت گردی کے زمرے میں لائے جانے سے ان مقدمات کے ٹرائل تاخیر کا شکارہوجاتے ہیں۔ اس سلسلہ میںپارلیمنٹ کو بھی چاہئے کہ وہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے نئی تعریف کے تعین کیلئے قانون سازی کرے اور عدالت عظمیٰ کی تشریح کے تناظر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تیسرے شیڈول میں شامل ایسے جرائم خارج کرے جن کا دہشت گردی سے تعلق نہیں یا وہ دہشت گردی سے متعلق عدالت عظمیٰ کی تشریح سے مطابقت نہیں رکھتے۔