28مئی کو دانیال نو برس کا ہو گیا۔سالگرہ کیسے منانی ہے کیا کیا سرپرائز گفٹ ہوں گے دوستوں کو کون سے گفٹ دیے جائیں گے یہ ساری پلاننگ صاحبزادے پورا سال کرتے ہیں مگر 28مئی اس بار وبا کے موسم میں آیا۔ لاک ڈائون میں اگرچہ نرمی ہے مگر سکول تو بند ہیں اور جنم دن کی سب سے اہم تقریب تو سکول کے دوستوں کے ساتھ منائی جاتی تھی جس میں برتھ ڈے بوائے ہم جماعتوں کے جھرمٹ میں کیک بھی کاٹتے اور پھر اپنی طرف سے سارے ہم جماعتوں کو گفٹ بھی دیتے۔ سب بچے اس سرپرائز پر بہت خوش ہوتے تھے کہ سالگرہ دانیال کی اور گفٹ ہم سب کو ملتا ہے یوں سارا سال دانیال کی سالگرہ کا انتظار ہوتا۔ اپنی سالگرہ پر دوسروں کو تحائف دینے کی روایت اس کے بابا نے اسے سکھائی تاکہ اس کے ننھے ذہن میں دینے کا تصور لینے سے زیادہ پختہ ہو اور وہ دے کر خوشی محسوس کرے۔ اس بار ماہ اپریل سے ہی دانیال کے سوالات شروع ہو گئے کہ اب لاک ڈائون میں کیسے سالگرہ منائوں گا۔ سکول بند ہیں۔ کھلونوں کی سب دکانیں بند ہیں پارک اور پلے لینڈ بند ہیں۔ میں اس کے سوالات سن کر سوچتی کہ اس وبا نے ہمیں زندگی کی چھوٹی چھوٹی کتنی خوشیوں سے محروم کر دیا ہے۔ دنیا بھر کے بچے لاک ڈائون کی صورت حال میں ان تمام خوشیوں سے محروم ہیں۔یونیسف کے یو کے چیپٹر نے اپنی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ لگائی ہے کہ کووڈ 19نے بچوں کے بنیادی حقوق پر کاری ضرب لگائی ہے۔بچے نہ سکول جا سکتے ہیں نہ پارکوں میں کھیل سکتے ہیں۔ نہ پلے لینڈ میں اپنی چھٹی کے دن لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ سخت لاک ڈائون کی صورتحال میں عملی طور پر بچے گھروں میں مقید ہو چکے ہیں۔اس سے میرا دھیان مقبوضہ کشمیر کے سرخ و سفید پیارے پیارے بچوں کی جانب چلا گیا۔بھارتی جبر و استبداد مسلسل لاک ڈائون اور ظلم و ستم کے ماحول میں ان کا بچپن ان سے روٹھا ہوا ہے۔کہاں کا سکول کھیل کے میدان اور کہاں کی چہلیں پہلیں۔ وبا کے موسم میں لاک ڈائون کی کیفیت میں بیماری کے خوف اور مسلسل خدشوں اور وسوسوں کے ماحول میں جب میں اپنے بیٹے کے جنم دن پر اسے دیکھ کر اس کے لئے ایک مکمل محفوظ پرامن اور خوشیوں سے بھری ہوئی زندگی اور دنیا کی خواہش کرتی ہوں تو مجھے وہ تمام معصوم اور پیارے بچے یاد آنے لگتے ہیں جن کی پھول جیسی زندگیاں عالمی طاقتوں کے بھیانک فیصلوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔جنگیں بمباری‘ دھماکے، ہجرتیں، پناہ گزینی کی اذیتیں، بے گھری کے عذاب، قحط، موت اور بیماری کے سائے ان معصوموں کے لئے زندگی کو کیسے اذیت ناک بنا دیتے ہیں۔ شام کے بدقسمت بچے فلسطین کشمیر اور میانمر کے ستم رسیدہ پھول سے بچے، پھر یمن کی سرزمین کے بچے جن پر بھوک اور قحط کے جنگی ہتھیاروں کو آزمایا جا رہا ہے مگر دنیا اس ظلم پر خاموش ہے۔ لاک ڈائون کا چوتھا مہینہ شروع ہونے کو ہے تین ماہ سے مسلسل سکول بند ہیں پانی کی بوتلیں لنچ باکس اور بستے اداس ہیں۔ بچے اپنے اپنے دوستوں کو ٹیچرز کو اور سکول کے معمولات کو یاد کرتے ہیں۔ میں جب اپنے بیٹے کو دیکھتی تو دعا کرتی ہوں کہ حالات بہتر ہو جائیں وبا کا موسم پلٹ جائے اور سکولوں کی ویرانیاں پھر سے بچوں کی چہل پہل سے آباد ہو جائیں۔وبا نے زندگی کا چہرہ بالکل بدل کر رکھ دیا ہے پہلے تو صرف بڑے بوڑھے ہی ماضی کو یاد کیا کرتے تھے اب تو ننھے بچے بھی وبا سے پہلے کی زندگی کو ایسے ہی یاد کرتے ہیں جیسے بزرگ اپنے ماضی کو دھراتے ہیں۔28مئی کو دانیال کا دوست ایک خوبصورت گفٹ کے ساتھ اسے مبارکباد دینے آیا دونوں بچے جوس پیتے اور آئس کریم کھاتے ہوئے کچھ اس قسم کی باتیں کر رہے تھے: ہادی تمہیں یاد ہے میتھ کی ٹیچر کیسے زیرو کا ہیپی فیس بنا دیتیں تھیں(ننھے ننھے قہقہے) ہاں ہم کتنا ہنستے تھے اور دانیال جب اردو کی ٹیچر ہماری سپورٹس کلاس بند کر دیتی تھیں۔ہمیں کتنا غصہ آتا تھا۔ یاد ہے ہادی جب ایک دن حمزہ کا لنچ باکس چھپایا تھا۔(دونوں بچے کھکھلا کر ہنستے ہیں) یار کب سکول کھلیں گے میں سکول کو بہت یاد کرتا ہوں ہوم ٹائم میں اسامہ کے ساتھ مل کر ہم کتنی مستی کرتے تھے۔ ہے نا دونوں بچوں کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں اور میرے دل سے دعا نکل رہی تھی کہ یااللہ وبا کا موسم پلٹ جاتے اور ہم پھر سے نارمل اور محفوظ زندگی جینے لگیں۔ اس دنیا کو اپنے ورلڈ آرڈر پر چلانے والی طاقتیں ہمیں خبردار کرتی ہیں کہ اس وبا کے پھیلنے اور پھر قابو میں آنے کے بعد نارمل زندگی کی طرف پلٹنے میں 18ماہ لگ سکتے ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ 18ماہ کا کلیہ بل گیٹس نے ہمیں اس وقت ہی بتا دیا تھا جب وہ کئی سال پہلے مختلف ٹاک شوز انٹرویوز میں دنیا کے سامنے ایک خطرناک وبا کی پیشین گوئی کرتا تھا پھر ساتھ ہی وہ پوری دنیا کو ویکسی نیٹ کرنے کے عزم کا اظہار کرتا تھا۔ ویکسی نیشن سے یاد آیا کہ وبا کے موسم میں پولیو کی ویکسی نیشن بھی بچوں کو نہیں دی گئی اور ڈبلیو ایچ او نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے خسرہ کی ویکسی نیشن بھی تیار نہیں ہو رہی۔ ابھی تو یہ ایک کالمی خبر ہے کل کو خدانخواستہ اگر ننھے بچوں میں خسرہ پھیلا، ویکسین دستیاب نہ ہوئی تو پھر ایک نیا کرائسس جنم لے سکتا ہے۔ اس دنیا کے بڑے کتنے ظالم ،بے حس اور کٹھور دل ہیں ۔یہ دنیا انہوں نے بچوں کے لئے کتنی غیر محفوظ بنا دی ہے۔احمد مشتاق کے قلم سے دعا ایک پھول کی طرح اگی تھی کہ امن ملے مرے بچوں کو، انصاف ملے دودھ ملے، چاندی سا اجلا پانی ملے، یہ تو بھلے دنوں کی بات ہے جب شاعر نے یہ دعا مانگی۔ اب تو بات اس سے آگے نکل گئی۔ وبا کی افتاد میں سکول بند ہیں۔ بچوں کے ننھے دلوں سے ہراس کی زرد بیل لپٹی ہوئی ہے دعا ہے کہ وبا کا موسم پلٹ جائے جلد سکول کھلیں اور بچے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ہیپی برتھ ڈے کے گیت گائیں۔آمین