سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ فوائد الفواد کی نویں مجلس میں فرماتے ہیں کہ مصیبیت کے نازل ہونے سے قبل دعا کرنی چاہیے، مصیبت جب اوپر سے نازل ہوتی اور دعا نیچے سے اوپر جاتی ہے، تو ہر دو کا فضا میں آمنا سامنا ہوتا ہے ، اگر دعا میں قوت اور طاقت ہو تو وہ مصیبت کو واپس لوٹا دیتی ہے اور اگر قوت نہ ہوتو پھر مصیبت نازل ہوجاتی ہے ۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ جب تاتاریوں نے 1221ء میں یلغار کی اور یہ مصیبت نیشاپور کے پاس پہنچی ، جِس کے نتیجے میں لاکھوں انسان ہلاک ہوئے اور تاتاریوں نے پورے شہر کو برابر کرکے وہاں فصل بودی ، اور شہر کی آبادی سے صرف چارسو کاریگر زندہ بچے ، جنہیں تاتاری اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ وہاں کے حکمران نے ایک قاصدحضرت شیخ فرید الدین عطارؒ کی خدمت میں بھیجا ، اور ان سے دعا کی درخواست کی ، آپ نے جواب دیا :’’ دعا کا وقت گزر گیا ، اب رضا کا وقت ہے ‘‘ یعنی خدا کی طرف سے مصیبت نازل ہوچکی ہے ، اب اپنے آپ کو رضائے الٰہی کے سپرد کردینا چاہے، بعد ازاں حضرت سلطان المشا ئخ ؒنے فرمایا کہ مصیبت نازل ہونے کے بعد بھی دعا جاری رکھنی چاہیے، اس سے خواہ مصیبت دور نہ بھی ہو، لیکن اس کی شدت اور سختی میں ضرور کمی واقع ہوجاتی ہے ۔ آپ نے مزید فرمایا: ’’ صبر یہ ہے کہ بندہ جب کسی ناگوار صورت سے دوچار ہوتو صبر کرے، اور رضا یہ ہے کہ جب بندہ کا کسی ناگوار صورت سے واسطہ پڑے تووہ خود کو ناگواری کا احساس بھی نہ ہونے دے ، یعنی وہ بَلا اور مصیبت اس تک پہنچی ہی نہیں۔ بلاشبہ دعا کا شعور ہر انسان میں فطری طورپر ودیعت کیا گیا ہے ۔ آدابِ دعا اور فضیلت دعا اگرچہ مذہب سکھاتا ، لیکن یہ شعورانسانی زندگی میں موجود ہے۔ بچہ بیمار ہوتو ماں کی التجا خود بخود فضاؤں کو چیرتی ہوئی آسمانوں تک جاپہنچتی ہے، جہاز خطرے میں ہوتو، مسافروں کو دعا سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی ، دعا ان کے دل سے نکل پڑتی ۔۔۔ بلکہ آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپک پڑتے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں، اور میں اس کے پاس ہوں، جب وہ دعا کرے، یعنی دعا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور معیت میسر ہوتی ہے۔’’کثرت دعا‘‘ کی بھی ترغیب دی گئی ہے، بلکہ یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دعا میں کمی اور کوتاہی نہ کرو کہ ۔۔۔ دعا کرنے والا ہلاک نہیں ہوتا۔ دعا مومن کا ہتھیار ، عبادت کا مغز، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ہے ۔ اللہ تعالیٰ باربار اور کثرت سے دعا کرنے والے کو دوست رکھتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاکہ تقدیر کسی چیز سے نہیں ٹلتی ، مگر دعا سے ، یعنی قضا معلق ۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ جب اللہ سے دعا کرو، تو قبولیت کی کامل امید کے ساتھ ،پوری توجہ اور انہماک سے۔ تساہل اور غفلت سے کی جانے والی دعا پابہ قبول کو نہیں پہنچتی ، یعنی دعا پورے عزم و جزم اور کثرت سے کی جانی چاہیے۔ اسی طرح قبولیت دعا کے لیے خاص ساعتیںبھی ہیں۔ دعا اللہ کی عظمت و قوت کا اعلان اورانسان کی بندگی ، عاجزی اور بے بسی کا اظہار ہے ، جوکہ خدا کو ازحد پسند ہے ، دعاعبد ومعبود میں ضبط مربوط اور ربطِ مضبوط ہے ، دعا خدا سے ہم کلامی اور’’ کلیمی ‘‘ ہے۔ دعا انسان کی خدا پرستی اور توکل کا مظہر، اور بالخصوص طمانیتِ قلب اور سکون کا ذریعہ ہے ، جِس کی موجودہ بحران میں ازحد ضرورت ہے۔ دعا سے۔۔۔ اس مقصد اور آرزو کے ساتھ ایک لگن اور تعلق پیدا ہوتا ہے ، جس کی طلب اور تڑپ اسے دن میں کم از کم پانچ مرتبہ نماز کے بعد دعا کی توفیق عطا کرتی ہے ، اوراپنے مقصد و تمناکو اپنے شعور اور تحت الشعور میںتازہ رکھتی ہے ۔نفسیات کا یہ بھی طے شدہ اور مسلمہ اصول ہے کہ ’’خیال ‘‘ ہی سب سے بڑی طاقت اور قوت ہے اور جب دعا کے ذریعے ۔۔۔ دِن میں متعدد بار ، ہم اپنی طلب اور تڑب کو بصورتِ دعا ۔ قلب وذہن میں تازہ کرتے ہیں ، تواس سے یقینا تمام طاقتیںاس کے حصول کے لیے برسرِ پیکار ہوجاتی ہیں، اسی جذبے اور ’’فعالیت‘‘ کو توفیق الہٰی کا نام دیا جاتا ہے ۔ اور ہاں ۔۔۔اس غلط فہمی میںبھی مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ دعا سے بِلا سعی و کاوش منزلِ مراد حاصل ہوجائے گی ، درحقیقت اس سے نفس میں اس آرزو کے متعلق اخلاص اور استقلال پیدا ہوجاتا ہے ، جِس سے انسانی طاقتیں ۔۔ہمہ تن حصولِ مراد میں مستعد و منہمک ہوجاتی ہیں۔یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب خدا نے کہا ہے کہ میرا بندہ ، جب مجھ سے سوال کرتا ہے ، تو میں اس سے قریب ہوتا اور اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں،پھر دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتی، دراصل شرائط قبول کا معدوم ہونا اور ’’مدعا‘‘ کا بندے کے مفاد کے خلاف ہوناہی بعض اوقات اس کے راستے میں رکاوٹ بنتاہے۔ جیسے بچہ آگ کا انگارہ مانگے اور ماں کیونکر دے۔۔۔؟ کیا اس سے ماں کی ممتا میں کمی واقع ہوگئی؟ کہ بچہ لاعلمی میں ایسی چیز مانگ رہا ہے جس کے بھیانک نتائج کو صرف ماں کی دوربین نگاہیںہی دیکھ پاتی ہیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیگر امور کی طرح ’’دعا ‘‘ کو بھی ، اللہ اور بندے کے درمیان ایک خاص رشتہ قرار دیے کر، اس کا صحیح مفہوم امت کو عطا فرمایا ، کہ اللہ سے کن کن شرائط کے ساتھ مانگنا چاہیے از خود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات کی تنہائیوں اور آخرِ شب کی خلوتوں میں ، از خود دعا مانگ کر ، جہاں دوسروں کو ’’دعوتِ عام ‘‘ دی، وہاں اپنی بندگی اور عبدیت کا بھی اظہار کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الدعاُٗ سلاحُ المومن و عمود الدین و نور السمٰواتِ و الارض یعنی دعا مومن کی سپر ، دین کا ستون ،زمین اور آسمان کا نور ہے ۔ صحابہ کرام ؓاور اہلِ بیت اطہار کی دعائیں اور دعاؤں کا اختیار کرنے کے اسلوب اور طریقے، موجودہ حالات میں ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہیں ۔ خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی دعا: خذ بِلُطفِک یا الہٰی من لَہ‘ زادً قَلیل مُفلِس’‘ بِالصِّدقِ یَاتِی عِندَ بَابِکَ یا جَلیل یا الہٰی! اس شخص سے ، اپنے لطف کا معاملہ فرمائے، جِس کے پاز زادِ آخرت بہت ہی معمولی ہے ۔ جلال پناہا !ایک درماندہ اور مفلس ۔۔۔ سچے دل سے آپ کے درپہ آپڑا ہے ۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓنے فرمایا : الدعآئُ تُرسُ المُومِنِ ومتی تکثرُ قرع البابِ یفتح لک یعنی دعا مومن کی ڈھال ہے ، اور جنتا زیادہ دروازہ کھٹکھٹاؤ گے ، اتنا ہی جلدی کھلے گا۔ قال الامام زین العابدین علیہ السلام الدعا یَدفَعُ البلآئَ النَّازِلُ وَمَالَم یَنزِل یعنی ’’دعا ‘‘ آنے والی اور نہ آنے والی آفات و بلیات کو ٹال دیتی ہے۔ امام باقر علیہ السلام کہتے ہیں: الدُّعائُ اَنفذُ مِنَ السَّنانِ الحَدِید یعنی ’’دعا‘‘ سنگین تیر سے بھی بڑھ کر۔۔ ۔ اثر انداز ہونے والی شے ہے۔ امام رضا علیہ السلام نے کہا: عَلَیکُم بِسَلَاحِ الانبیا ئ،َ فقیل: وماسِلاحُ الانبیآئ،َ قال الدُّعَا تمہیںچاہیے کہ انبیا کے اسلحہ سے خود کو مسلح کرو، پوچھاگیا انبیاء کا اسلحہ اور ہتھیار کیا ہے فرمایا ’’الدعا‘‘