دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس پھر بے قابو ہونے لگاہے ‘ گزشتہ روز موذی وائرس سے مزید 17 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ بڑے سیاسی رہنمائوں سمیت 2165 نئے مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔ این سی او سی کی ہدایات کی روشنی میں وفاقی حکومت نے سرکاری دفاتر میں حاضری 50 فیصد کم کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ کورونا کی دوسری لہر نے ایک بار پھر تباہی مچا دی ہے۔ جب پہلی لہر آئی تھی تب حکومت پاکستان کے طے کردہ ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بناکر عوام نے اس موذی وائرس سے اپنے آپ کو محفوظ بنایا تھا لیکن دوسری لہر کے آنے کے ساتھ ہی حکومت نے ایک بار پھر ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کا اعلان کیا ہے لیکن ابھی تک ہر آدمی لاپروائی سے کام لے رہا ہے۔ماسک پہننا تو دور کی بات ہے،گلے ملنے اور سماجی فاصلہ بھی نہیں رکھا جا رہا۔نوبت باایںجا رسید کہ سرکاری دفاتر سے لے کر عام پرائیویٹ دفتروں تک کہیں بھی ماضی کی طرح کورونا سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔شادی ہالوں کو بند کرنے کا اعلان ہوا،تو شادی ہال ایسوس ایشن نے میڈیا پر آ کر واویلا کرنا شروع کردیا کہ ہمارا کاروبار بند کیا جارہا ہے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ میں بھی ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں کروا جا رہا۔ مارکیٹوں‘سکولز‘کالجز میں بھی ہر چیز کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس بار کورونا سے ملازمت پیشہ افراد زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔جب کورونا کی پہلی لہر آئی تھی تب سرکاری دفاتر کو بند کردیا گیا تھا،کئی دفاتر میں گھر بیٹھ کر کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی،تقریبا پانچ مہینے تک سرکاری ملازمین گھروں میں بیٹھ کر کام کرتے رہے ہیں،لیکن کورونا کی حالیہ لہر کے دوران نہ تو دفاتر میں ایس او پیز کی پابندی کی جا رہی ہے نہ ہی سماجی فاصلہ رکھا جا رہا ہے جس کے باعث سرکاری اور پرائیویٹ دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔چند روز قبل چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا انتقال ہوا۔اس سے قبل ایک اور جج صاحب اس موذی مرض کے باعث انتقال کر گئے تھے،اب سندھ اسمبلی کے ایم پی اے اس موذی وائرس سے چل بسے ہیں۔گزشتہ روز ایک سینئر صحافی بھی موت کی آغوش میں چلا گیا۔ بے وقت اور اچانک کی موت خاندان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔جانے والا تو چلا گیا لیکن اس کے گھر والے‘ماں باپ ،بہن بھائی ،بیوی اوربچے زندگی بھر اذیت سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔اس لیے ہمارے سیاستدانوں کو بھی اس کا خیال کرنا چاہیے۔ اپوزیشن کے جلسے جلوس جاری ہیں،جن میں عوام کا ہجوم ہوتا ہے ،صاف ظاہر ہے ہزاروں کے مجمعے میں ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنا مشکل تر ہوتا ہے،جس سے لوگوں کے متاثرہ ہونے کے زیادہ خطرات موجود ہوتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈران خود تو سٹیج پر ایس او پیز کے تحت فاصلہ رکھ کر بیٹھے ہوتے ہیں،انھوں تمام تر حفاظتی اقدامات کر رکھے ہوتے ہیں ، لیکن گراونڈ میں کارکنان ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوتے ہیں،ماسک پہنا ہوتا ہے نہ کسی نے حفاظتی انتظام کر رکھے ہوتے ہیں ، ایسے میںں جراثیم کے پھیلنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ میڈیا پر جلسے جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیںجو باعث افسوس ہے۔ سیاسی رہنمائوں کو اپنے کارکنوں اور محبت کرنے والوں کو کسی نئی آزمائش سے دوچار نہیں کرنا چاہیے۔ خدانخواستہ جب کسی غریب گھر کا فرد موذی وائرس کی زد میں آتا ہے تو اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔گھر والے تب جس اذیت سے دوچار ہوتے ہیں وہ بیان سے باہر ہے، بڑے بڑے سیاسی رہنما تب جنازے میں شرکت کرنے سے بھی کتراتے ہیں کہ کہیں موذی وائرس انہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ سیاسی رہنمائوں کو اپنی ادائوں پر غور کرنا چاہیے۔ جب تک کورونا وائرس کی ویکسین مارکیٹ میں ہر خاص و عام کو دستیاب نہیں ہو جاتی، تب تک اپوزیشن رہنمائوں کو عوامی اجتماعات سے گریز کرنا چاہیے۔ این سی او سی نے سرکاری دفاتر میں پچاس فیصد عملہ کم کرنے کا حکم دیا ہے،جس کے بعد پالیسی فریم ورک میں جاری کردیا گیا ہے کہ جس کے مطابق جوائنٹ سیکرٹریز روٹیشن کی بنیاد پر آفس میں حاضری شیڈول بنائیں۔متعلقہ افسران گھروں میں بیٹھ کر آفیشل کام کریں۔ اپنا ورکنگ اسٹیشن بغیر بتائے نہ چھوڑیں‘دفاتر میں کام ای فائلنگ کے ذریعے کیا جائے۔ فائلوں کی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقلی کو روکا جائے۔دفاتر میں تھم سے حاضری لگانا روک دی جائے،اس کے علاوہ دفاتر میں عام لوگوں کا داخلہ بالکل بند کردیا جائے۔اگر مجبوری کے تحت کسی کو اجازت دینی بھی ہو تو مکمل ایس او پیز کا خیال رکھا جائے۔ اگر ہم ایسی تدابیر اختیار کریں گے تو پھر ہی اس موذی وائرس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ہم نے اس میں بے احتیاطی برتری تو پھر حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں سے لے کرٹرانسپورٹرز‘سکولز‘کالجز‘ یونیورسٹیز اور مارکیٹوں میں اگر ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا تو پھر حکومت کو اس معاملے میں پہلے کی طرح سختی کرنی چاہیے۔تاکہ کورونا کے پھیلاو کو روکا جا سکے ،کم از کم دو ہفتوں کا لاک ڈائون کیا جائے اور بتدریج اس میں نرمی کی جائے۔ہر شعبے کے ذمہ دار سے تحریری گارنٹی لی جائے،اس کے بعد ہی متعلقہ شعبے کو کھولا جائے،اس طرح ہم کورونا سے بچ سکتے ہیں ورنہ اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔