تجزیہ:سید انور محمود کیا فوج کو ایک آئینی حکومت کے احکامات نہ ماننے ،اس کی مدد نہ کرنے اور اپوزیشن کیلئے جگہ بنانے کا کہنا آئینی بات ہے ؟ ا سی پر آج پی ڈی ایم محدود رہی اور ایک بار پھر مولانا فضل الرحمٰن نے اتوار کی ریلی میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ کیا یہ فوج کو بغاوت پر اکسانے جیسا نہیں ؟ اوریہ کہ فوج ایسے الزامات اور تقاریر کا جواب نہیں دے رہی تو یہ درست طریقہ ہے اور قابل فہم بھی۔لیکن ہمارے قانونی ماہرین، بار ایسوسی ایشنز، انسانی حقوق کے کارکن اور جمہوری کارکنوں کے متعلق کیا خیال ہے ؟ہماری جمہوریت سے متعلق انتہائی اہم معاملے پر ان کی خاموشی ناقابل فہم ہے ، جبکہ ہمارے لبرل میڈیا کے ایک بڑے حصے کی بے حسی بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ اپوزیشن نے مبینہ انتخابی دھاندلی کیخلاف قانونی مدد کیلئے متعلقہ فورمز سے رجوع نہیں کیا، اس نے گزشتہ دو سالوں سے ایسا نہیں کیا۔ کیوں؟ کیونکہ 2018 کے عام انتخابات اتنے ہی شفاف اور غیرشفاف تھے جتنے ہمارے سارے انتخابات ہوتے ہیں، وہ انتخابات بھی جن میں موجودہ اپوزیشن جیتتی رہی ہے ۔ تو پھر اب یہ شور و غوغا کیوں؟ صاف ظاہر ہے کہ احتساب کی گرمی سے بری طرح پریشانی ہو رہی ہے ؟ میرے خیال کے مطابق ہمارے ناقدین کو خوش کرنے کیلئے ریڈ لائن بڑی بے شرمی سے عبور کی جا چکی ہے جبکہ ہم اپنی غیر سنجیدگی اور بے حسی کیساتھ مگن ہیں۔ کیا ہم نے ان ریلیوں میں بھارت کے جرائم اور پاکستان میں دہشتگردانہ سرگرمیوں کیلئے معاونت کیخلاف ایک لفظ بھی سنا ہے ؟یا اس کی جانب سے بلوچستان میں سی پیک اور ایران اور افغانستان کیساتھ ملحقہ علاقوں میں شرپسند سرگرمیوں کیلئے اربوں ڈالرز کی فنڈنگ کے متعلق کچھ سنا؟ بالخصوص شمالی وزیرستان میں دوبارہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کیخلاف؟ اپوزیشن کی ریلیوں میں ہماری مسلح افواج کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکسایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے آئینی کردار تک محدود رہیں، ان کا دفاع کون کرے گا؟ہمارے آئین میں مسلح افواج اور عدلیہ کے متعلق معاملات اور دفعات کا نفاذ یقینی بنایا کس کی ذمہ داری ہے ؟ یقیناً یہ تحریک انصاف کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی آئینی دفعات کی بے وقعتی نہ کر سکے ۔ اسے بہترین حکمت عملی کیساتھ باوقار اور آئینی طریقے سے ردعمل دینے کی ضرورت ہے ۔ عمل کی نسبت باتیں کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے ۔معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے ہماری مسلح افواج کو ان تنازعات میں گھسیٹے سے روکنے کیلئے ، جو کہ ہمارے دشمنوں کا مقصد ہے ، حکومت کو اپنے تمام آئینی و قانونی ماہرین کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک موثر رکاوٹ پیدا کی جا سکے ۔اگر مکمل تیاری اور مدلل طریقے سے ایسا کیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ منتشر ذہن کی اپوزیشن کے غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ بیانیوں اور غیر آئینی مطالبات کی راہ میں عدالتی رکاوٹ پیدا کی جا سکے ، وہ اپوزیشن جو ملک اور اس کے ناگزیر اداروں پر خود کو ترجیح دیتی ہے ۔اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ نوجوان بلاول پشاور ریلی میں نیب پر بہت چیخ چلا رہے ہیں، مولانا کو بھی یہی شکایت ہے اور ن لیگ کی وارث کو بھی۔ مختصراً یہ ہے کہ مطالبہ یہ ہے کہ کرپشن کیسز ختم کئے جائیں اور ایسا کرنے کیلئے فوج خود سے مداخلت کرے ۔ پہلا مطالبہ وزیراعظم کو منظور نہیں جبکہ دوسرا آئینی نہیں ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ تعطل برقرار رہے گا اور ملک اور اسکی معیشت مشکلات سے دوچار رہے گی، کورونا کی دوسری لہر بے یارومددگار آبادی کو مفلوج کر کے رکھ دے گی اور فوج سخت کشمکش اور اس اضطراب میں رہے گی کہ اپنا دفاع کرے یا ملک کا؟ ہمارے فوجی جوان اور آفیسرز ہر روز ہماری حفاظت اور پرامن زندگی کیلئے جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں، تو ہم میں سے بھی ہر شخص کی اور ریاستی اداروں کا یہ فرض ہے کہ ان کے دفاع میں کھڑے ہوں جیسا کہ وہ ہمارے دفاع میں کھڑے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو تاریخ ہمیں احسان نافراموش اور ناشکرے لوگوں کے گروہ کے طور پر دیکھے گی، ذمہ دار اور باوفا قوم کے طور پر نہیں۔