آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے دورہ کے موقع پر دفاعی پیداوار میں خود انحصاری کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل کے میدان جنگ میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے خود کفالت کی صلاحیت بڑھانا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دفاع کے لئے سرگرم عمل مسلح افواج کے پیچھے اصل طاقت پاکستان آرڈیننس فیکٹری ہے۔ پاکستان کے مشرقی اور مغربی بارڈر پر موجود خطرات کی شدت اور نوعیت بھلے الگ الگ ہے لیکن اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ قومی سلامتی پر دونوں جانب سے حملے ہوتے رہے ہیں۔ جن سے نمٹنے کے لئے دفاعی پیداوار میں خودکفالت ضروری ہے۔ایک طرف سے دہشت گردانہ کارروائیاں اور دوسری طرف سے سرحدی خلاف ورزی اور ایل او سی پر گولہ باری جاری ہے ۔ نومبر2019ء کے دوران تاریخ میں پہلی بار پاکستان کی دفاعی برآمدات کا حجم 1ارب ڈالر تک جاپہنچا ۔ جے ایف17 تھنڈر طیارے کو پاکستان کی ان دفاعی برآمدات میں مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔ عالمی ادارے نکی ایشین ریویو لنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال ایک بلین ڈالر کے دفاعی ساز و سامان کی فروخت کے حتمی ہدف کے ساتھ اپنے اسلحے کی برآمد کو بڑھانا چاہتا ہے۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ در حقیقت پاکستان نے پہلے ہی اپنے اسلحے کی فروخت میں اضافہ شروع کردیا ہے، اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال کے 2018ء کے دوران اسلحے کی برآمدت 210 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی تھیںجبکہ تین سال پہلے یہی برآمدات محض100 ملین ڈالر کی تھیں۔ اس سے پانچ سال قبل یہ برآمدات صرف 60 ملین ڈالر کی تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ اس بارے میں ابھی تک کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کہ کس طرح کے ہتھیار برآمد کیے گئے یا کہاں کیے گئے لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسلحے کی تیاری میں دوست ملک چین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔اس کی مثال جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیارے ہیں جو دونوں ممالک مشترکہ طور پر تیار کرتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق جے ایف 17 تھنڈر نے پاکستان کو خود کفالت کی بنیاد فراہم کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔ چین نے پاکستان کی ٹینکوں کی تیاری میں بھی مدد کی ہے ، چین نے جے ایف 17 منصوبے اور پاکستانی بحریہ کو جنگی جہازوں اور آبدوزوں کی تعمیر میں مدد کی ہے۔ 2016 میں پاکستان نے میانمار کے ساتھ 16 جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیاروں کی فروخت کے معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔دہشت گردی نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جو قیام امن کے لئے ایک چیلنج ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس ناسور پر قابو پانے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ حالیہ پاک روس مشترکہ جنگی مشقوں کے ذریعے دفاعی معاملات میں کافی حد تک جدت لائی گئی ہے۔ پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں اب تک محدود وسائل سے اندرونی دہشت گردی پر قابو پاکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ پاکستان، روس اور چین بلاک دفاعی اعتبار سے ناقابل تسخیر ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ معاہدوں اور جدید ہتھیاروں کی خریداری کے ذریعے تعلقات میں قدرے بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ چین و روس کا پاکستان میں دفاعی سرمایہ کاری سے معاشی استحکام بھی ممکن ہو سکے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کا روایتی جنگ میں کوئی مقابلہ نہیں ہے کیونکہ نئی دہلی اپنی عددی برتری کے باعث اس محاذ پر اسلام آباد سے بہت آگے ہے۔بھارت نے حال ہی میں فرانس سے رافیل لڑاکا طیارے حاصل کئے ہیں ،اسرائیل سے جدید ریڈار نظام لیا جا رہا ہے۔ کئی طرح کا اسلحہ امریکہ سے خریدا جا رہا ہے۔ تاہم غیر روایتی جنگ میں اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ایک باہمی تباہی کا خوف ہے، جس کی وجہ سے بھارت پاکستان کو چیلنج کرنے سے گھبراتا ہے لیکن اب امریکہ کے ساتھ معاہدہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ بھارت کو ایک برتری مل جائے گی کیونکہ معاہدے کی بدولت بھارتی فضائیہ کے پاس سٹیلائیٹ ڈیٹا امریکی معاہدے کی وجہ سے موجود ہوگا۔ جس سے اس کے ٹارگٹ زیادہ مستند اور بہتر ہو سکتے ہیں۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے سے خطے میں جنگ کی خواہش مذید پروان چڑھے گی۔ بھارت میں پہلے ہی بی جے پی کی ایک ایسی حکومت ہے جو مہم جوئی پر یقین رکھتی ہے۔ وہ نہ صرف چین کو للکار رہی ہے بلکہ پاکستان کو بھی وقتا فوقتا دھمکیاں دیتی ہے۔ ایسی صورت میں اس معاہدے کی بدولت بھارت کوسٹریٹجک فائدہ مل سکتا ہے جس کو وہ استعمال کر سکتا ہے۔ معاہدے سے خطے میں اسٹریٹجک توازن متاثر ہوگا، جس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ پاکستان کو جہاں مسلح افواج اور پولیس کے زیر استعمال اسلحے ‘ گولی ‘ گولے اور دیگر ہتھیار بنانے میں خودکفالت درکار ہے وہاں جدید ریڈار ٹیکنالوجی، اپنی جی پی ایس ٹیکنالوجی‘ اینٹی میزائل شیلڈ‘ نائٹ ویژن عینکوں‘ بلٹ اور بم پروف آلات کی تیاری کے لیئے اپنے منصوبے شروع کرنا ہوں گے۔ ہو سکتا ہے بعض اسلحہ و دفاعی ٹیکنالوجی کی تیاری درآمدی اخراجات سے مہنگی پڑتی ہو لیکن اس سے مستقل طور پر دوسروں کی محتاجی سے نجات مل سکتی ہیچاہے وہ دوستوں کی محتاجی ہی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں پاکستان بڑے پیمانے پر دوست ملک چین کی طرح ترکی‘ روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ پاکستان عالمی طور پر ایک حساس خطے میں واقع ہے۔ جہاں کسی بھی وقت سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ان حالات میں دفاعی خود انحصاری سے پاکستان زیادہ مضبوط اور مستحکم ہو سکتا ہے۔