پاکستان تحریک انصاف نے’’ تبدیلی ‘‘کے دعوے پر عوام سے ووٹ لیے تھے یہ تبدیلی شفافیت، بدعنوانی کے خاتمے، میرٹ اور انصاف کی صورت میں آنا تھی۔ اقتدار کے پہلے 28ماہ میں تحریک انصاف کی حکومت اپنے ایجنڈے اور عوامی خواہشات کے مطابق کس قدر تبدیلی لا سکی اس بارے میں ناصرف تحریک انصاف کے ارکان بلکہ خود وزیر اعظم بھی اپنی بے بسی اور ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیر اعظم نے حلف لینے کے بعد تبدیلی کے ایجنڈے پر اپنی بساط کے مطابق عمل شروع کر دیا تھا ۔اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کا پہلا مسئلہ معیشت کی ابتر صورتحال تھی ۔وزیر اعظم اسلام آباد دھرنے میں موجودہ نظام میں رہتے ہوئے غیر ملکی قرضوں سے نجات اور اسی قوم سے 8ہزار ارب ٹیکس اکٹھا کرنے کا دعویٰ کر چکے تھے ، حکومت اس ہدف کے حصول میں کوشش ناکام ہوتی دکھائی دی تو ٹیکس نظام میں اصلاحات کے لئے شبر زیدی کو ایف بی آر کا چیئرمین لگا کر مکمل اختیارات دیے گئے ۔نئے چیئرمین نے کرپشن سے آلودہ نظام کا زنگ اتارنے کے لئے اپنے تائیں ہاتھ پائوں مارے مگر بقول ان کے ان کو بالآخر وزیراعظم سے شرمندگی سے بچنے کے لئے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ شبر زیدی نے استعفیٰ کے ساتھ وزیر اعظم کی نیک نیتی ، ایماندار ہونے اور وطن کی خدمت کے جذبے کی گواہی بھی دی۔ اپنی ناکامی اور استعفیٰ کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ’’ جن لوگوں سے ٹیکس لینا تھا وہ چیئر مین سے زیادہ طاقتو رتھے‘‘۔ گویا ریاست میں ایسی نادیدہ قوتیں ہیں جو ریاست سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ شبر زیدی کی بات کو ناکامی چھپانے کا جواز کہنا اس لئے بھی مناسب نہیں کیونکہ خود وزیر اعظم یہ اعتراف کر چکے ہیں ان کو پہلے 26ماہ تک تو درست اعداد و شمار ہی نہ دیے گئے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم قوم سے درست اعداد و شمار حقائق فراہم نہ کرنے کا گلہ تو کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے غلط معلومات فراہم کرنے والوں میں سے کس کس کے خلاف کارروائی کی؟ ۔ یہاں تک کہ وفاقی وزیر ٹیکنالوجی میڈیا پر یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ موجودہ سیٹ اپ میں وزیر اعظم کے لئے کام کرنے کی گنجائش ہی موجود نہیں ۔بظاہر ان کا اشارہ نظام حکومت، افسر شاہی اور قواعد و ضوابط کی موشگافیوں کی طرف ہے ۔اگر یہ درست ہے تو پھر ایک سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر اس ملک کا وزیر اعظم سسٹم کے ہاتھوں بے بس ہے تو پھر سیاستدانوں کے لئے اربوں کھربوں کی لوٹ مار کرنا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جو نظام ملک کے وزیر اعظم کے جائز اور قانونی اختیار کے استعمال کرنے میں بھی حائل ہو اسی نظام میں وزیر اعظم تو دور کی بات وزیر مشیر بھی افسر شاہی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اربوں کھربوں کی لوٹ مار کر پائیں؟ اور اگر لوٹ مار میں افسر شاہی برابر کی حصہ دار ہوتی ہے تو پھر احتساب پر مامور قومی اداروں کا شکار صرف سیاستدان ہی کیوں؟ وزیر اعظم اور ان کے وزیروں مشیروں کی فوج دن رات صرف سیاستدانوں کی لوٹ مار کی دھائی کیوں دے رہی ہے؟ حکومت یا نیب نے سیاستدانوں کی کرپشن میں معاونت کرنے والے سرکاری افسروں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کر رہی؟ یہ سچ ہے کہ وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشی اصلاحات کے ساتھ کرپشن کے خاتمے کے لئے بھی عملی اقدامات کرنا شروع کیے۔ فرائض سے غفلت برتنے اور سیاستدانوں کی لوٹ مار میں مدد کرنے والے افسروں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز بھی ہوا تھا مگر جلد ہی نادیدہ قوتوں نے وزیر اعظم کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ یہ نا دیدہ قوتیں اور وزیراعظم کی الجھن ان کے راستے میں حائل ان کی اپنی حکومتی مشینری تھی۔ وزیر اعظم نے بیورو کریسی کو کرپشن کی تحقیقات میں یہ کہہ کر کلین چٹ دے دی کہ اگر احتساب کے ادارے کو بیورو کریٹس کی گرفتاری کے اختیارات دیے گئے تو پھر ڈر سے بیورو کریسی کام کرنا چھوڑ دے دی۔ حکومت اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کرنے کو ہے مگر ابھی تک تبدیلی لانے میں ناکام ہے ۔شبر زیدی نے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک اکسیر نسخہ معیشت کی ڈیجٹلائزیشن کی صورت میں دیا تھا ۔حکومت اگر شبر زیدی کے 50ہزار روپے سے زائد رقوم کی منتقلی کے لیے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن اور قومی شناختی کارڈ کی شرط پر ہی عملدرآمد کر دیتی تو نہ صرف ٹیکس وصولیاں ہی بہتر ہوتیں بلکہ ملک سے بدعنوانی اور لوٹ مار کو ختم کرنے میں بھی مدد ملتی۔ ملک میں کرپشن اور رشوت کی وجہ غیر منظم مالی نظام کو قرار دینا اس لئے غلط نہیں کیونکہ رئیل سٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض شبر زیدی سے بھی پہلے رشوت اور بدعنوانی کے خاتمے کے لئے یہ تجویز پیش کر چکے ہیں کہ اگر حکومت ایک اور پانچ ہزار کے نوٹ ختم کر دیتی ہے تو پھر لوگوں کو رشوت دینے کیلئے نوٹ ٹرکوں پر لانے پڑیں گے جو ممکن نہیں ہو گا۔ اگر حکومت واقعی ہی ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ چاہتی ہے تو ہر محکمے کے افسر کو جہاں اس کا اختیار ہے کرپشن کی صورت میں ذمہ دار تصور کر کے اس کے خلاف احتسابی عمل کو یقینی بنانا ہوگا ۔دوسرے جب تک حکومتی کاروبار سرکاری اہلکاروںکے اختیار میں ہے حکومتی اداروں میں رشوت اور کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں حکومت کو نظام حکومت کو ڈیجیٹلائز کرنا ہو گا ۔یہ انہونی اور ناممکن بات اس لئے بھی نہیں کہ پاکستان میں متعدد ادارے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بھر پور اور کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں پاکستان کا بنکنگ سیکٹر اس کی بہترین مثال ہے اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر وزیر اعظم اور ان کی حکومت پر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر ہی صداق آئے گا: دل میں ناکام امیدوں کے بسیرے پائے روشنی لینے کو نکلا تو اندھیرے پائے