’’آج ہمارے شہر پہ درجنوں اسرائیلی آباد کاروں نے دھاوا بولا ہے۔ یہ لوگ یہاں متروک مکانات پہ غیر قانونی طور پر قبضہ کر چکے ہیں اور اب جگہ خالی کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔‘‘ یہ بات ہمیں عبداللہ نے لکھ کر بھیجی ہے۔ تین سال پہلے جب ہم الخلیل گئے تھے تو مسجد ابراہیمی کی سیر کے دوران عبد اللہ ہمارے ہم رکاب تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ، ان کی بی بی سارہ، فرزند حضرت اسحق علیہ السلام اور بہو حضرت رُقیہ یہیں پہ مدفون ہیں۔ اس شہر کا نام الخلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے نام پہ رکھا گیا ہے۔ عبرانی میں حبرون دوست کو کہتے ہیں اور عربی میں حضرت ابراہیم کا ایک نام الخلیل بھی ہے جس کے معنی دوست ہی کے ہوتے ہیں۔یہودی اور مسلمان دونوں حضرت ابراہیم کو خلیل اللہ مانتے ہیں۔عبداللہ کی رہائش مسجد ابراہیمی کے قریب ہی ہے اور ان کا ذریعہ معاش یہی ہے کہ وہ زائرین کو ان مقبروں کی سیر کروانے لے جاتے ہیں۔ان کی حالیہ ای میل میں انہوں نے لکھا ہے کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان ہر روز پنج وقت نمازوں میں درود ابراہیمی پڑھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اکثریت اس بات سے ناواقف ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقبرہ کہاں ہے اور ان کے شہر الخلیل میں یہودیوں نے کس طرح ہم مسلمانوں کو یرغمال بنا یا ہوا ہے۔الخلیل یروشلم سے محض اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کئے جانے کے اعلان کے بعد سے اسرائیل کے قانون نافذ کرنے والے ادارے مزید بے باک ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنی طاقت کا دائرہ الخلیل شہر تک وسیع کر لیا ہے۔یہ شہر مغربی کنارے میں واقع ہے۔غزاء کے بعد یہ فلسطینی علاقوں میں شامل سب سے بڑا شہر ہے۔ابھی حال ہی میں اسرائیلیوں نے یہاں باسٹھ افراد کا قتل عام کیا اور تین ہزار کے قریب دیگر افرادکو شدید زخمی بھی کر دیاتھا۔ان لوگوں کا قصور یہ تھا کہ وہ امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔ الخلیل کو دوسیکٹرز میں منقسم کیا گیا ہے۔اس کا اسی فی صد حصہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول ہے جبکہ بیس فیصد پہ اسرائیل کا قبضہ ہے۔جب ہم وہاں گئے تھے توہمیں اسرائیلی فوجیوں کی بڑی تعداد وہاں نظر آ رہی تھی ۔ یہ فوجی وہاں یہودی کوارٹر میں آباد چھ سو اسرائیلیوں کی حفاظت کے عذر کی بنیاد پہ شہر کا گشت کر رہے تھے۔آج تین سال بعد وہاں اسرائیلی آباد کاروں کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔مسجد ابراہیمی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمیں چلتے ہوئے اسی طرف رہنا ہوگا جو مسلمانوں کے لئے مخصوص ہے۔ یہاں بھی سیکورٹی کے انتظام کے لئے ہزاروں کی تعداد میں اسرائیلی فوجی تعینات کئے گئے ہیں۔ہزار سال پرانی اس مسجد کا داخلی دروازہ سادہ سا ہے جو اندر ایک وسیع و عریض ہال میں کھلتا ہے۔اس ہال میں بڑے بڑے فانوس روشن نظر آتے ہیں اور دیوار تا دیوار سرخ رنگ کے کارپٹ بچھے ہوئے ہیں۔ رنگ و نقش و نگار میں یہ کارپٹ مسجد اقصٰی اور قبتہ الصخرہ میں بچھے قالینوں کی طرح معلوم ہو رہے تھے۔سامنے ہی تین بڑی بڑی قبریں تھیں جن پہ سبز غلاف چڑھا ہوا تھا اور ان سبز غلافوں پہ سنہرے رنگ کے تار سے قرآنی آیات کاڑھی گئی تھیں۔ہم پہلی قبر کی جانب گئے۔ اس کی طرف بنی کھڑکی کے اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام عربی میں لکھا ہوا تھا۔ان کے ساتھ ہی حضرت اسحق علیہ السلام اور حضرت رقیہ کی بھی قبریں تھیں۔ حضرت سارہ کی قبر ایک الگ حصے میں حضرت ابراہیم کی قبر کے بالمقابل بنی ہوئی تھی۔یہ جگہ مسلمانوں کے لئے ایک مسجد، یہودیوں کے لئے ایک ہیکل اور عیسائیوں کے لئے ایک گرجے کی حیثیت رکھتی ہے۔تینوں مذاہب کی روحانی بنیادیں یہیں ہیں لیکن تینوں مذاہب کے پیروکار یہاں عبادت الگ الگ کرتے ہیں۔قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر انہتر بار آیا ہے۔تینوں بڑے مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام ان ہی کے نام پہ ابراہیمی مذاہب کہلائے جاتے ہیں۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر65میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ، اے اہل کتاب، تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ؟ تورات اور انجیل تو اس کے بعد نازل ہوئیں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ اور پھر اسی سورۃ کی 67ویں آیت میںارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ابراہیم ؑ نہ تو یہودی تھا اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ ایک خالص مسلمان تھا، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا۔الخلیل یا فلسطین کا مسئلہ اب شاید کبھی بھی حل نہ ہو کیونکہ امریکہ اس تنازعے میں واضح طور پر نیتن یاہو کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس کی ثالثی کی حیثیت اب برقرار نہیں رہی ہے۔ایک خارجہ پالیسی تجزیہ کار کے مطابق کشمیر اور تائیوان کی طرح یہاں بھی حالات کی درستگی کم از کم ہماری زندگی میں تو ممکن نہیں۔اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر242 اور338پر عمل درآمد کیا گیا ہوتا تو چالیس سال قبل ہی عرب اسرائیلی تنازعے کی تحلیل ہو چکی ہوتی !!