ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم بہت جلد کسی کی باتوں میں آ جاتے ہیں‘ اپنا وقت بے کار میں ضائع کرتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں ان دنوں گندم اور چنے کی فصل پر ٹڈی دل کا حملہ ہوا۔ حرام ہے جو کسی کو توفیق ہوئی ہو کہ اس معاملے پر لکھے!۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب کہتے ہیں:’’لکھنے کا حق اسے ہے جسے اپنے اردگرد کے ماحول کا علم ہو‘ جسے یہاں تک معلوم ہو کہ اس کے علاقے میں پانی کے جوہڑ میں مینڈک کی کون کون سی قسم پائی جاتی ہے‘‘۔ افسوس ہم لکھنے والوں کو یہ علم نہیں کہ ایک زرعی ملک کی معیشت کو خطرات کہاں سے ہیں‘ ان خطرات کا حجم کیا ہے اور اس کے متعلق آگاہی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ کہتے ہیں دو گرام کی ٹڈی کا لشکر افریقہ سے چلا‘ 16کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے والا یہ لشکر ایک روز میں لگ بھگ 150کلو میٹر کا سفر کر سکتا ہے۔اڑتا اڑتا یہ ٹڈی دل ایران سے بلوچستان میں داخل ہوا‘ وہاں سے سندھ اور پھر جنوبی پنجاب سے ہوتا ہوا ان دنوں پاکپتن‘ ساہیوال اور اوکاڑہ کے علاقوں میں دکھائی دے رہا ہے۔ بلوچستان سے روانہ ہونے سے لے کر اوکاڑہ کے پپلی پہاڑ تک آتے آتے جگہ جگہ ٹڈی نے انڈے زمین کے اندر چھپا دیے ہیں۔30سے 35دن میں بچے نکل آئیں گے اور ٹڈیوں کے تازہ دم لشکر ہماری فصلوں کو تباہ کر دیں گے۔ ایک ماہر غذایات بتا رہے تھے کہ ٹڈی میں 62فیصد پروٹین جبکہ باقی چکنائی اور دیگر غذائی عناصر ہوتے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ دو کروڑ ٹڈیاں ایک روز میں اتنا سبزہ کھا جاتی ہیں جو 35ہزار آدمیوں کے ایک دن کی خوراک کے برابر ہوتا ہے۔ ان دنوں ہمیں جس ٹڈی دل کا سامنا ہے وہ دو ماہ سے روزانہ 50ہزار آدمیوں کی خوراک کے برابر سبزہ کھا رہا ہے۔ پسماندگی رویے میں ہو تو قوم گالی گلوچ کی دلدادہ ہو جاتی ہے‘ پسماندگی ہنر میں ہو تو بے روزگاری عام ہو جاتی ہے‘ پسماندگی لاعلمی کی شکل میں سامنے آئے تو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ ہمیں کس خطرے سے کیسے نمٹنا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں سینکڑوں ایسے زمیندار ہیں جو اپنی زمینوں پر جہازوں سے سپرے کروا سکتے ہیں مگر ٹین کے پیپے یا ڈھول بجا کر ٹڈی دل بھگانا چاہتے ہیں۔ بہت سے زمینداروں نے گورے اور مقامی زرعی انجینئروں کو بھی فارم منیجر رکھا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں وائس چانسلر یونیورسٹی آف اینیمل سائنسز سے ملاقات ہوئی، ڈاکٹر نسیم احمد نے بتایا کہ پاکستان کی زرعی برآمدات میں 40فیصد زرعی اجناس جبکہ 60فیصد حصہ لائیو سٹاک کا ہے۔ ہمارے عرب بھائی ٹڈی دل کو تھیلوں میں بھر بھر کر منڈی میں لے آتے ہیں۔ کوئی گرم بھٹی میں انہیں چنوں کی طرح بھون لیتا ہے، کوئی کھلے تیل کی کڑاہی میں ان ٹڈیوں کو فرائی کر کے کھا جاتا ہے۔ حکومت نے کوشش کی کہ ٹڈیوں کو زہریلے سپرے سے کنٹرول کیا جا سکے۔ دو جہازوں سے سپرے شروع کیا مگر جلد ہی ایک جہاز گر کر تباہ ہو گیا۔ دیپالپور میں ٹڈیوں نے جنگل میں پناہ لی تو انتظامیہ نے اعلان کیا:ٹڈی دل کو پکڑ کر لانے والوں کو فی کلو 20روپے کا معاوضہ دیا جائے گا۔ بس پھر کیا تھا روزانہ کئی بوریاں بھری جا رہی ہیں۔ یہ ٹڈی دل مرغیوں کی خوراک میں ڈالی جا رہی ہے۔ پھر خبر آئی کہ دیرینہ دوست ریاست چین سے مدد لی جا رہی ہے۔ چین نے ایک لاکھ بطخ دینے کا اعلان کیا۔ یہ بطخیں ایک روز میں 68ٹڈیاں کھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بعد ازاں یہ اطلاع غلط نکلی۔ بہرحال ایک سال میں چار سے پانچ نسلوں کی افزائش کی صلاحیت رکھنے والی ٹڈی دل کو ختم کرنے کے لئے یہ صدیوں سے رائج دیسی طریقہ تھا جو بطخوں کی کمی کی وجہ سے بگڑ چکا ہے۔ ابھی تک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ٹڈی دل نے انسانوں یا مویشیوں کو نقصان پہنچایا ہو۔ نہ ہی کسی ایسی بیماری کا علم ہوا ہے جو ٹڈی دل کے ذریعے انسانوں کو منتقل ہوئی ہو۔ بلکہ اگر کوئی ٹڈی غلطی سے کسی انسان کو درخت سمجھ کر اس کا خون چوسنے کی کوشش کرے تو خود مر جاتی ہے‘ پاکستان کے کسان تیس برسوں کے بعد ٹڈی دل کے شدید ترین حملے سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ برس اور رواں برس میں بگولوں اور بھاری بارشوں نے ٹڈی دل کو افزائش کے لئے موزوں ماحول فراہم کیا ہے لیکن ہماری غلط شجرکاری‘ زہریلے سپرے اور کھادوں کے استعمال نے مقامی پرندوں کی آبادی بری طرح متاثر کی ہے‘ کھیتوں کے اردگرد رہنے والے سانپ اور چوہے تک ختم ہو رہے ہیں۔ ٹڈی دل کو اب کسی کا خطرہ نہیں رہا۔ ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔وفاقی حکومت نے بین الاقوامی برادری سے مدد مانگ لی ہے۔ سندھ کے زرعی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس بار صوبے میں کپاس کی فصل متاثر ہوگی۔سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کا کہنا ہے کہ کپاس کی آدھی فصل تباہ ہو سکتی ہے۔ پنجاب میں ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے اگرچہ تاخیر سے اقدامات کئے گئے لیکن بزدار حکومت کو داد دینا پڑے گی کہ ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے ایک مستقل نظام بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے تاکہ انڈوں سے جب بچے نکلیں تو ان کو ختم کیا جا سکے۔ چینی ماہرین مٹی کے نمونوں کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ چین نے چالیس ڈرون فراہم کرنے اور لاکھوں لٹر سپرے مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے اقوام متحدہ کے حکام نے بھارت اور پاکستان کے زرعی حکام کے مابین تعاون کے لئے کچھ اجلاس کئے ہیں۔ لاکھوں چھوٹے کسان قرض لے کر مرچیں‘ سبزیاں ‘ کپاس اور گندم بوتے ہیں۔ ٹڈی دل کے حملے نے ان کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ قرض واپس کر سکیں۔ ہمارے زرعی ماہرین اور حکام اس طرح کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘ زرعی معیشت میں ایسے انجینئرز اور ٹیکنیشنز کی شدید کمی ہے جو تکنیکی و قدرتی خطرات سے بچا سکیں۔ حکومت کی زرعی شعبے میں سرمایہ کاری امدادی سکیموں تک محدود رہی ہے‘ جب تک حکومت لیبارٹریز اور ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری نہیں کرے گی زراعت فائدہ بخش شعبہ نہیں بن سکتی۔