متنازع شہریت قانون کے خلاف جاری دھرنے سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لئے ہندو بلوائیوں نے دہلی میں مسلم کش فسادات شروع کر دیے ہیں جن میں مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔ہلاکتوں کی تعداد 37،جبکہ 200افراد زخمی ہوئے ہیں۔ امریکہ اور او آئی سی نے مسلمانوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے فی الفور روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران پوری عالمی برادری اور میڈیا کی نظریں ان کے دورے پر مرکوز تھیں تب ہندو بلوائیوں نے دہلی کے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا۔ ان کی املاک ‘کاروبار اور قیمتی گاڑیوں کو نذر آتش کیا۔ یہ فسادات اچانک رونما ہوئے نہ ہی انہیں مودی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ہندو بلوائی ہمیشہ سے ہی ایسے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔19مارچ 2000ء کو امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں جنوبی ضلع اسلام آباد کے چھیٹی گائوں سنگھ پورہ میں بھارتی فوج کی وردی میں ملبوس مسلح افراد نے سکھ برادری کے 35سے زائد افراد کا قتل عام کیا تھا۔ بعدازاں تحقیقاتی ٹیم نے ان ہلاکتوں کا ذمہ دار نیم فوجی تنظیم سی آر پی ایف اور پولیس کو ٹھہرایا لیکن بھارتی حکومت نے ان مسلح جتھوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی امریکی اعلیٰ شخصیت بھارت کا دورہ کرتی ہے تو وہاں کی اقلیتیں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔1947ء کے بعد بھارت میں ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ گجرات اور مظفر نگر کے فسادات سرفہرست ہیں لیکن بھارتی حکومت نے آج تک کسی ملزم کو سزا نہیں دی۔ اسی بنا پر ہندو دہشت گرد بلا خوف و خطر سرعام اقلیتوں کا قتل کرتے ہیں۔ پورے بھارت میں مذہب اور گائے کا گوشت کھانے پر جس طرح قتل عام ہو رہا ہے، ایسا خطے کے کسی بھی ملک میںنہیں ہوتا۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد 62سانحے ہوئے جن میں 128افراد کو قتل کیا گیا ان میں 124مسلمان اور چار دلت شامل ہیں لیکن ان واقعات میں ملوث ملزمان کو آج تک قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ آج دہلی میں ہر طرف تباہی کے مناظر نظر آتے ہیں۔ لوگ خوف اور ڈر سے سہمے ہوئے ہیں نہ جانے کس سمت سے ہندو دہشت گردوں کا گروہ نکل کر ان کی زندگی کا چراغ گل کر دے۔گزشتہ روز دہلی ہائی کورٹ نے بی جے پی کے تین رہنمائوں کپل مشرا‘پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر پولیس کی سرزنش کی ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک پولیس نے بلوائیوں کو مشتعل کرنے والے ان رہنمائوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ دہلی پولیس ہندو دہشت گردوں کی سہولت کار بن کر مسلمانوں کو عام آدمی پارٹی کو ووٹ دینے کی سزا دے رہی ہے جبکہ بھارت میں موجود دو قومی نظریے کے مخالف مسلمان لیڈروں نے اس قتل عام پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔جمعیت علماء ہند یا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنمائوں کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔23فروری کو بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے جس اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا تھا اگر بھارت کے مذہبی لیڈران سنجیدگی کے ساتھ اس کا نوٹس لیتے تو دہلی کے مسلمانوں کا قتل عام رک سکتا تھا۔ ایک طرف مسلمان مولی گاجر کی طرح کاٹے جا رہے ہیں دوسری طرف مولانا اسد محمود مدنی اور اسد الدین اویسی جیسے مسلمان لیڈر انہیں صبر و تحمل کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ مودی سرکار نے جب کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کیا تب بھارت کے مسلمان لیڈر خاموش رہے کیونکہ وہ کشمیر میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا درد اپنا درد نہیں سمجھتے لیکن چالاک مودی نے پہلے کشمیریوں پر وار کیا، پھر ہندوستان کے مسلمانوں کو دیس سے نکالنے کے لئے شہریت بل اسمبلی میں پیش کیا۔ اب وہاں پر مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس ساری صورت حال پر اقوام متحدہ ، او آئی سی ،عرب لیگ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کردار انتہائی افسوسناک ہے۔57اسلامی ممالک میں سے صرف پاکستان‘ترکی اور ملائشیا ہی بھارتی اقدام کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کا ازسر نو تعین کرنا چاہیے کیونکہ آج امریکہ سمیت پوری عالمی برادری پاکستان کے پرامن کردار کی معترف ہے۔ جبکہ طالبان اور امریکہ کے مابین مجوزہ معاہدے میں بھی پاکستان کا اہم کردار ہے۔ ہمیں اس سے فائدہ اٹھا کر دنیا کو باور کرانا چاہیے کہ اس خطے میں شورش کا موجدکون ہے؟ امریکہ بھارت کو جنگلی ہتھیار فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہمیں امریکہ کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے کہ مودی آر ایس ایس کا ممبر ہے‘ اس کی سوچ انتہا پسندانہ ہے۔ اگر بھارتی ہتھیار ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہوں گے تو پھر دنیا کے امن کی گارنٹی کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ بندر کے ہاتھ میں استرا دینے والی ہے لہٰذا امریکہ بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کی فروخت کے طے پانے والے منصوبے ختم کرنے کا اعلان کرے اور اس پورے خطے میں امن اور سلامتی کو فروغ دینے والے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرے تاکہ وہ مضبوط ہو کر خطے میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے غربت اور دہشت گردی کا خاتمہ کر سکے۔