میر تقی میر سے منسوب شعر کا یہ مصرعہ ’’دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب‘‘ ایک تاریخی سچائی ہے کہ’’ شاہجہاں آباد ‘‘ تعمیر ہوا تو شاہجہاں نے عرب و ایران اور ایشیائی ممالک کے صاحب علم و ہنر کو دعوت دی کہ یہاں آکر آباد ہوںاورجویہاں آبادہونے کے لئے آئے گا انہیں دس ہزاری، بیس ہزاری کا اعزاز اور اکرم سے نوازا جائے گا۔دلی کی گلیوں، محلوں، حویلیوں، سیرگاہوں،قلعوںاور بازاروں کے نام یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ یہاں مدت تک مسلمان سلاطین کی حکومت قائم رہی ۔دلی کی جامع مسجد سے متصل ایسا ہی ایک بازارجو’’ اردو بازار ‘‘کے نام سے جاناجاتاہے۔ جو کسی زمانے میں اپنی منفرد شناخت وشان رکھتا تھا۔ جہاں سے ہندوستان کے مشہور و معروف اخبارات، کتابیں،رسائل، میگزین شائع ہوا کرتے تھے اور اسلامی،دینی کتب کے علاوہ تاریخ، طب اور اردو ادب کی ہر کتاب یہاں دستیاب ہوتی تھی۔ جبکہ علمی و ادبی، محفل و مجالس کا خصوصا اہتمام ہوتا تھا۔ ان ادبی محفلوں میں نامور شخصیات شرکت کیا کرتی تھیں۔ لیکن اب یہ علم کا گہوارہ دہلی کا تاریخی اردو بازار قصہ پارینہ بن چکاہے اردو بازارمیں نامی گرامی کتابوں کی دکانیں اب مچھلی اور مرغ فرائی کی دکانوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ سب سے پہلے اردو بازاردلی کے لال قلعہ کے سامنے ہوا کرتا تھا جو بعد میںدلی کی جامع مسجد سے متصل آباد ہوا ۔ 1936ء میں خواجہ حسن نظامی نے اس بازار کا نام’’ اردو بازار‘‘ رکھا تھا۔ اسی اردو بازار میں ان کا اپنا خود کا کتب خانہ موجود تھا۔ کسی زمانے میں یہ بازار جگت سنیما سے لے کر جامع مسجد گیٹ نمبر ایک تک پھیلا ہوا تھا۔ بڑے بڑے علما ء کرام نے یہاں اپنے کتب خانے قائم کیے ہوئے تھے۔ لیکن آج اردو بازار کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ لوگوں میں اردو کی کتابوں کو پڑھنے کا ذوق ختم ہوچکاہے۔ لوگ بیس روپے کا پان تو خریدنا پسند کرتے ہیں لیکن پندرہ روپے کا رسالہ خریدنے میں انہیں شرم آتی ہے۔ ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب اردو بازار میں قطار سے کتب خانے آباد تھے کتاب پڑھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ نامور ادیب شاعر، افسانہ نگار، صحافی، خطاط، پینٹر اور یہاں تک کے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بھی یہاں آکر بیٹھا کرتے تھے۔ علم کے پروانے نئی نئی کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ کرتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ لیکن اب یہاں کے بیشتر کتب خانے بند ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ سسکیاں لے رہے ہیں۔ لوگ علم پروری کی بجائے شکم پروری پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔کتابیں پڑھنے کے بجائے اب یہاں فرئی مچھی اورفرائیڈ مرغ کھانے کے لئے رخ کرتے ہیں۔ اردو بازار میں شعرا، ادیب، ادب کے قارئین، ، پبلیشرز، محققین، نقاد اکثر گھومتے نظر آتے تھے۔ یہ علاقہ صاف ستھرا رہتا تھا نہ شوروغل نہ بھاگ دوڑ، دلی کے دوسرے تجارتی علاقوں سے بالکل مختلف امتیازات کا حامل تھا، اردو بازار کٹرا نظام الملک کے باہری کونے سے شروع ہو کر دوسرے کنارے پر ختم ہوتا تھا۔کتب خانہ انجمن ترقی اردو اس سے آگے ایک کتب خانہ لاجپت رائے اینڈ سنز تھا۔ ایک کتب خانہ علمی کتب خانہ اور مولانا رفیق کتب خانہ تھا۔ مولانا رفیق کتب خانے کے مالک مددگار پبلیشر مصنف پارسل لے جانے والے منیجر، طباعت و اشاعت کے ذمہ دار سب کچھ تھے۔ اکیلی جان سے سب کچھ کرتے اکثر مذہبی کتابیں شائع کرتے اور فروخت کرتے تھے ان سے اگلی دکان مولانا احمد سعید کا کتب خانہ تھا۔ مولانا ناول نگار تھے نثر خوبصورت انداز میں لکھتے تھے، ان کے ناول اور خطوط کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے کا کتب خانہ نظریہ تھا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اردو بازار میں حالی پبلیکیشن ہائوس بھی تھا جہاں اب مرغ مچھلی فرائی ہوتی ہے۔ اس سے اگلی دکان مکتبہ جامعہ ہے جو تاحال باقی ہے لیکن آخری سسکیاں لے رہاہے ، اسی کے برابر میں جماعت اسلامی ہند کا کتب خانہ ہے۔ اس کے برابر میں سنگم کتاب گھر تھا جہاں اب جوتے فروخت ہوتے ہیں۔کتب خانہ رشیدیہ ، کتب خانہ ابو الحسن ندوی بھی بند ہو گئے ہیں۔مکتبہ شاہراہ، کیفی پبلک لائبریری، دارالمصنفین، دفتر خاکسار، دفتر مسلم لیگ، دفتر خاتون مشرق، وغیرہ سب گزرے زمانے کی کہانیاں بن گئے۔ اردو بازار رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ نہ جانے کتنے کتب خانے یہاں آباد تھے۔ اگر سبھی کا ذکر کیا جائے تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ اردو بازاردلی جو کسی زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، جہاں اردو کی نادر و نایاب کتابیں خریدنے کی غرض سے جاپان، چین، انڈونیشیا، دبئی، امریکہ، برطانیہ، کنیڈا، ترکی اور خلیجی ممالک تک سے عاشقان اردو آتے تھے اور اردو کی کتابیں خرید کر لے جاتے اور ان سے استفادہ کرتے تھے۔ا ردو بازاردلی عربی، فارسی اور اردو کی کتابوں کے لیے عالمی شناخت رکھتا تھااور جو کتاب پورے ہندوستان میں کہیں نہیں ملتی تھی وہ اردو بازار میں مل جاتی تھی۔ پرافسوس یہ کہ آج اردو کے لیے دہلی میں قائم قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، دہلی اردو اکیڈمی جیسے ادارے اردو کی کتابوں کو کم قیمت پر شائع کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی اردو کی کتابوں کی طرف لوگ توجہ نہیں دے رہے۔ اردو بازار کی سڑک پر بعد نمازعشا بڑے چھوٹے جلسے ہوتے تھے، جن میں اس زمانے کے تمام ممتاز شعرا شرکت کرتے تھے ۔ جامع مسجد کے اردگرد اردو پارک، آزاد پارک، ایڈورڈ پارک، پائے والا اسپتال، تعلیمی مرکز، افضل پشاوری کا آزاد ہند ہوٹل ہواکرتے تھے جواب سب کے سب معدوم ہورہے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ ایک تحریک برپاکرکے اردوبازاردلی کی رونقیں بحال کرنے میں بھرپورکرداراداکریںآج انہیں پہلے سے زیادہ اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ اردو کی اہمیت ان کی نئی نسل میں باقی رہے۔ اردو بازار صرف کتابوں کا بازار نہیں تھابلکہ دلی کی تہذیب و ثقافت کا امین ہواکرتاتھا اوروہ ایک سندکی حیثیت رکھتاتھا جس سے پتاچل جاتاتھاکہ یہاں مسلمان سلاطین مسنداقتداررہے ہیں۔