جے پور یعنی گلابی شہر۔بھئی سچ بات تو یہ ہے کہ شہر کا گلابی پن مجھے تو مصنوعی سا لگا۔اور یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ1876میں شاہ ایڈورڈ ہفتم (جو اس وقت محض شہزادہ تھا)کے دورۂ راجستھان کی خوشی میں تمام شہر کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جائے ۔یعنی پہلے سے تاریخی عمارتوں کا اصل رنگ جو بھی ہو اسے گلابی پن پر مجبور کردیا جائے۔ ہم جے پور میں داخل ہوئے تو نیلے، پیلے ،گلابی سے ہمیں کوئی غرض نہیں تھی ۔ہمیں تو اجمیر سے جے پور آمدکے وقت شام کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی ۔اودے پور میں اتنی سبزیاں ،اناج کھایا تھا کہ کسی قسم کی سبزی خوری منظور نہیں تھی۔اس لیے فوری طور پر کسی مسلمان ہوٹل کی تلاش تھی جہاںکھانا کھایا جاسکے ۔شہر سے بالکل ناواقف تین لوگ ایسے ہوٹل کا پتہ پوچھتے پھر رہے تھے لیکن ایسا ہوٹل تھا کہ دور دور نظر نہیں آرہا تھا۔ادھر بھوک سے جان نکلی جارہی تھی ۔ خدا خدا کرکے پرانے علاقے میں ایک چھوٹا سا ہوٹل نظر آیا جہاں صفائی کے حالات مشتبہ سے تھے لیکن حالتِ اضطرار کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ مزید نڈھال ہونے کے بجائے یہیں کچھ گزارا کرلینا چاہیے۔ کھانا برا نہیں تھا اور بھوک نے اسے لذیذ تر کردیا تھا۔ہندوستان میںناواقف مسلمان سیاح کو ایک بڑی دشواری یہ پیش آتی ہے کہ اگر صاف ستھرا اور اچھا ریسٹورنٹ ڈھونڈا جائے تو وہاں حلال کا بندو بست نہیں ہوتا اور مسلمان ہوٹل مل جائے تو وہاں صفائی اور معیار کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ تھکن بہت تھی اور رات کے وقت جے پور کا جائزہ لینا فضول تھا۔پھر بھی جن سڑکوں سے گزر کر ہوٹل پہنچے ان سے شہر کا ایک اچھا تاثر ابھرتا تھا۔جے پور ویسے بھی ہندوستان میں سیاحوں کے اہم مراکز میں ہے اوریکم نومبر2006کے جس دن ہم جے پور پہنچے اس سے اگلے دن کرکٹ چیمپینز ٹرافی کاسیمی فائنل جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان جے پور سٹیڈیم میں کھیلا جانا تھا۔لہذا شہر میں کافی گہماگہمی تھی اور اسے خوب صور ت تر بنانے کا بھی کافی اہتمام کیا گیا تھا۔لیکن کمرے میں پہنچ کر بستروں پر ڈھیر ہوجانا اس وقت سب سے بڑی خوشی تھی ۔گلابی شہر ایک طرف اور گلابی نیند دوسری طرف۔پلڑا گلابوں سے بھری نیند کا ہی بھاری تھا۔ جے پور زیادہ پرانی تاریخ نہیں رکھتا۔ریاست امیر (Amer)کے راجہ جے سنگھ دوم نے1727میں جین اگارا کے نام سے امیر سے 11کلومیٹر دور اس جگہ شہر کی بنیاد رکھی لیکن یہ شہراسی کے نام سے منسوب ہوکر جے پور کہلایا۔شہر منتقلی کی بڑی وجہ امیر میںجگہ کی تنگی اور پانی کی قلت تھی۔لیکن راجہ کو داد دینی چاہیے کہ اس نے پورے غور و فکر سے یہ نیا شہر بنایا اور یہ منصوبہ بندی کے ساتھ بنائے گئے اولین ہندوستانی شہروں میں سے ہے۔شہر کو 9بلاکس میں تقسیم کیا گیا جن میںسے دو بلاک سرکاری عمارات اور محلات کے لیے مخصوص کیے گئے جبکہ بقیہ سات عوام کے لیے رکھے گئے۔بڑی مہربانی کی راجہ نے ۔ سات بلاک اپنے لیے رکھ لیتا تو رعایا کیا بگاڑ لیتی؟ لیکن شہر سلیقے اور خوبصورتی سے بسایا گیا۔راستے کشادہ اور سیدھے، نالیاں بنی ہوئیں اور مکان ہوادار۔ جے پور میںبہت سی تاریخی عمارتیںہیں لیکن قلعہ امبر کی بات الگ ہے ۔مغلیہ قلعوں کی طرح پر عظمت اور پرشکوہ۔قلعہ امبر چونکہ جے پور بسنے سے پہلے ریاست امیر کا شاہی محل تھااس لیے اسے امیر قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔یہ قلعہ’ ’ چیل کا ٹیلا‘‘ نامی ایک پہاڑٰی پر’ ’ ماؤٹا ‘‘ جھیل کے قریب واقع ہے اوریہی جھیل قلعے میں پانی کی فراہمی کا منبع ہے ۔امبر قلعہ بھی اسی پہاڑی پر ایک پہلے سے موجود قدیم جے گڑھ قلعے کے قریب بنایا گیا ۔جے گڑھ قلعہ قدیمی محل بھی کہلاتا ہے اور شاید ہندوستان میں محفوظ شاہی محلوں میں قدیم ترین ہے ۔امبر قلعہ کوپرانے قلعے سے ایک راستے اور ایک سرنگ کے ذریعے جوڑ دیا گیا۔ہم اس قلعے کے نیچے کھڑے ہوئے تو اندازہ ہوا کہ یہ قلعہ کتنا بلند اور محفوظ ہے ۔ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 5ہزار سیاح روز قلعہ دیکھنے آتے ہیں۔جے پور کی عمارات میں یہ تعداد کے اعتبار سے پہلا نمبر ہے۔ان سیاحوں کو متوجہ اور خوش کرنے کے لیے انہیںمہاوت والے ہاتھی پر سوار کراکے ڈھلوان چڑھائی والے راستے سے قلعے میں پہنچانے کا بھی انتظام ہے ۔گورے اور گوریاں ہاتھی پر بیٹھ کر خود کو راجہ اور مہارانی سے کم تصورنہیں کرتے۔ہم اپنی ٹانگوں پر بھروسہ کرتے ہوئے نسبتاـ تنگ راستے اور مغلیہ انداز کے دروازے سورج پول سے اوپر پہنچے جو ابھرتے سورج کے رخ پر ہے ،تو اپنے آپ کو ایک کھلے احاطے میں پایا۔مغل طرز تعمیر امبر قلعے میں غالب ہے ۔وہی سنگ سرخ اور سنگ مرمر۔وہی محرابیں۔ وہی سبزہ زار اور ایوان۔فرغانہ سے آنے والے بابر کی اولاد نے سینکڑوں میل دورکچھواہہ کے راجپوتوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیا تھا۔چار سطحوں پر بنے اس محل میں دیوان عام، دیوان خاص، شیش محل ،بارہ دریاںتو ہیں ہی لیکن ’ ’ سکھ نواس‘‘ نام کا ایک مقام خاص ہے۔یہ بڑا کمرہ گرتے جھرنے کی سطح کو چھو کر آتی ٹھنڈی ہوا سے جھلسا دینے والی گرمی میںگوشۂ عافیت محسوس ہوتا ہوگا۔ ہال کا دروازہ صندل کی خوشبو دار لکڑی سے بنا ہے۔ گنیش دروازہ راجاؤں کے رہائشی حصوں میں داخلے کا مرکزی دروازہ ہے۔یہاں دیواروں پر بے شمار فریسکوز راجاؤں کی تصاویر اور ان کی مہمات کی یادگار ہیں۔درگا دیوی، یا کالی دیوی کا ایک جنم شیلا دیوی کے نام سے بھی موسوم ہے اور یہاں اس کا ایک خوب صورت مندر بھی موجود ہے ۔کئی داستانیں اس مندر کی تعمیر سے مشہور ہیں۔ گرمی بہت تھی اور محل میں گھومتے ہوئے ہم پسینوں میں نہائے جا رہے تھے۔باہر نکلنے والے تھے کہ ایک سیاح نے ہم سے کہا کہ ہم جاود کا پھول دیکھ کر ضرور جائیں۔شیش محل کے پاس سنگ مرمر کے ایک ستون پرزمین کے قریب ایک بڑاسا نیلگوں سیاہ پھولوں والا چوکھٹا بنا ہوا ہے۔ اس چوکھٹے میں سنگ مرمر کی کھدائی سے ابھرا ہوا، سنگ مرمر کا ہم رنگ ایک خوبصورت پھول بنا ہے ۔بظاہر ایک پھول ہے جس پر دو تتلیاںمنڈلا رہی ہیں۔کہتے ہیں کہ پھول کے مختلف حصوں کو باری باری ہاتھوں سے ڈھانپ کر دیکھیں توہر حصہ سات مختلف انداز سے ظاہر ہوتا ہے ۔مچھلی کی دم ،کنول کا پھول،پھن کاڑھے ہوئے کوبرا،ہاتھی کی سونڈ،شیر کی دم،مکئی کا بھٹا اور بچھو۔سب شکلیں اسی ایک ڈیزائن میں موجود ہیں۔ہماری قسمت کہ ہم اس ستون کا دور سے ہی دیدار کرسکے کہ کسی وجہ سے اس ستون کے قریب جانے کی ممانعت تھی۔ امیر سے واپس جے پور آتے ہوئے ہم ’ ’ جل محل‘‘ پر رکے ۔من ساگر جھیل کے عین درمیان بنائے گئے اس محل کی چار منزلیں،بھری ہوئی جھیل کی صورت میں، پانی کے نیچے اور ایک منزل سطح کے اوپر ہوتی ہے ۔اوپر والی منزل کاباغ اب ضائع ہوچکا ہے۔ ہم پہنچے تو جھیل میں پانی کم تھا۔ویسے تو محل میں صرف کشتی ہی سے جایا جاسکتا ہے لیکن سیاحوں کے لیے اس کا داخلہ ممنوع تھا اس لیے ہم اس خوب صورت عمارت کا کنارے سے ہی نظارہ کرسکے۔لیکن اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ راجستھان کی جھلستی دوپہر کے بعد پانی کے اوپر چلتی ہوا ،محل میں کیسی خنک ہوکر پہنچتی ہوگی۔ سعود میاں !شاہی محلات کے بارے میں یاد رکھو کہ حیرت اور عبرت کی اکلوتی اولاد کا نام ماضی ہے۔