اپنی اپنی بولی اور اپنا اپنا خیال، وقت گزرتا ہے، میلے کا رنگ بھرتا جاتا ہے۔ ہر حاضر اپنی شناخت رکھتا ہے۔ شناخت کو عام کرتا ہے۔ کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا وجود اور یاد دوسروں کو شناخت دیتی ہے۔ پھر شام کے سائے، زندگی کے سفر کا آخری پڑائو اور موت کا پلیٹ فارم، پلیٹ فارم کے اس طرف شہر خاموشاں اور اس شہر کے نئے آبادکار، لواحقین اور غمزدہ دوستوں کے اداس جلوس کے ساتھ قبر میں جا آباد ہوتے ہیں۔ وجود قبر میں ہے اور یادیں پس ماندگان کے سینوں میں حکایات وفا اور پریم کتھا لیے انہیں زندہ رکھتی ہیں۔ دوست کا مرثیہ کیسے لکھیں، دل نکلتا ہے اور آنکھیں ابلتی ہیں، کئی ایسے کہ ان کا مرنا وفا کا کفن دکھائی دے اور بہت سے وہ تارکین شہر دوستاں جنہیں یاد کر کے اپنی موت کا کنارا نظر آتا ہے۔ بنجارہ لاد چلا ہے۔ سب ٹھاٹھ ذرا دیر کو ہوتے ہیں۔ البتہ وہ جن کے ٹھاٹھ دوستوں سے ہوں، وہ مرنے کے بعد بھی راٹھ ہیں۔ ابھی مہینہ بھی نہیں ختم ہوا۔ فروری کی بہاراں میں یخ بستگی ہے۔ بارش اور بادل کبھی کبھار تڑاخے کی دھوپ، ایک شخص سوگوار کرگیا، لطف بہاراں سوگواری کی کیفیت میں بالکل ہی پھیکا پڑ گیا۔ اقبال بھٹی تھا۔ توانا جسم، نشیط ذہن اور آنکھوں میں زندگی کی بجلی کی سی چمک، کسے اندازہ کہ موت قریب ہی خیمہ گاڑے روح کو اچک کر بدن کو نڈھال اور مردہ کرنے پر تاک لگا کر بیٹھی ہے۔ اقبال بھٹی زندگی کرتا تھا۔ مردانہ زیست کرتا تھا۔ خاندانی طور پر رشتہ مذہب اقانیم ثلاثہ سے پیوست تھا۔ شعور اور لطافت جذبات کے سہارے اس کے مضبوط تھے۔ قبیلہ سلمان فارسیؓ کا سایہ امروز تھا، تلاش کرتا رہا، آخر کو رحمت اللعالمین ﷺ کی پناہ رحمت ایسی نصیب ہوئی کہ زبان و دل پر ختمی مرتبت ﷺ کے نام کی مہر ثبت ہو گئی۔ مگن رہتا تھا۔ جیتا جاگتا تدبر کرنے والا، قرآن پر غور، قرآن کو ڈوب کر پڑھنے والا، کسی نے پوچھا مذاہب میں تفریق کیا ہے؟ جواب تھا، سب عالمین کی رحمت کاملہ ﷺ سے دل جوڑو تو تفریق کی سب لکیریں وحدت انسانیت میں گم ہو جائیں گی۔ وکالت پیشہ تھا، رزق اٹھاتا تھا، اسی پیشہ سے۔ روزگار سے مطمئن، شام کو مقدمات کی تیاری پھر فائلیں بند، رات کا پیشہ داتا دربار کی حاضری، مینہ برسے، طوفان چلے، اس کی دھن کا کچھ نہیں بگڑتا تھا، تلاوت کرتا، بھرمعانی و مفاہیم میں ڈوب کر مراقب ہو جاتا۔ روحوں کی کائنات ،اجلی روحوں کی دنیا، برزخی شاہان کلاہ دار کی سنگت میں رات بتا دیتا تھا اور صبح روشن طبیعت کے ساتھ مظلوموں کی داد رسی کے لیے دنیاوی عدالت کی دہلیز پر کھڑا انصاف کو لپکتا تھا۔آواز میں نغمگی ایسی کہ ہر راہ چلتا مدھر آواز پر کان دھرے، ہر جمعہ بعداز نماز جمعہ صلواۃ و سلام اس دیوانگی سے پڑھتے تھے کہ گنبد خضریٰ نظروں میں سما جاتا تھا۔ پیشہ ورانہ صلاحیت اتنی زیادہ کہ پاکستان کے صف اول کے فوجداری وکیل شمار ہوئے تھے۔ بہت سے نامور قانون دانوں کی تربیت کی۔ بہت سے اعلیٰ درجے کے وکیل اور عدالت عظمیٰ کے جج بھی بنے۔ عصر دوراں میں سپریم کورٹ کے ایک معزز سینئر جج اور لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور ملک بھی مرحوم بھٹی صاحب کے لائق شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مرحوم بھٹی اپنے شاگردوں میںروحانی ذوق بھی اتارتے تھے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمت اللہ علیہ کے دربا پر حاضری اور عارف کھڑی شریف حضرت میاں محمد صاحب ؒ کے مزار اقدس پر جناب جسٹس منظور ملک صاحب کی عقیدت مندانہ حاضری اسی صحبت دوست کے اثرات ہیں۔ محبت کی دنیا میں ایک اور یاد اپنے برادرانہ امور مومنانہ عادات کے ساتھ محفوظ ہے۔ یہ میرے محترم رفیق کار سردار نذر حسین ڈوگر کی شخصیت کا دل پذیر سراپا ہے۔ سردار صاحب اسی ماہ دار بقاء کو سدھار گئے اور اب نئی دنیا میں نئی راحتوں کے ساتھ پرسکون ہیں۔ تقریباً 35 سال کا عرصہ گزر گیا جب راقم اور سردار صاحب پنجاب کی اس پہلی عدالت میں رفاقت امور کے رشتے میں آئے جو بنکنگ جرائم کے سلسلے میں قائم ہوئی تھی۔ میری سرکاری ذمہ داری چیف پراسیکیوٹر تھی اور برادرم ڈوگر میرے معاونت کے لیے پراسیکیوٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ہم سرکاری ذمہ داریوں سے فارغ ہوتے تو سردار صاحب نہایت متانت اور گرم جوشی سے قانونی امور اور دیگر معاشرتی احوال پر نہایت جچی تلی گفتگو کیا کرتے تھے۔ کسی بھی نئے مقدمے پر بہت تفصیلی اور متوازن رائے دیتے تھے اور پھر کیا کرتے تھے کہ حتمی رائے تو آپ ہی کی وقیع ہوا کرتی ہے۔ حرف نویس کو ہمیشہ ان کی رائے پر اعتماد رہتا تھا۔ کبھی رائے سے اختلاف کرتا تو بڑے حوصلے اور امتنان سے تسلیم کرتے تھے۔ یہ ان کی ذات کی اخلاقی کشادگی کا ایک سادہ سا ثبوت تھا۔ طبیعت میں سنجیدگی اور شکر کے خصائص بہت واضح نظر آتے تھے۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم، اخلاق اور شائستہ کردار سے آراستہ کرنا ان کی زندگی کا فرائضی وطیرہ تھا۔ سرفراز ڈوگر اسی تعلیم و تربیت کا مرقع ہیں کہ آج کل لاہور ہائیکورٹ کے جج ہیں۔ سرفراز صاحب جب جج بن گئے تو مرحوم نذر ڈوگر ملتان چلے گئے اور بیٹے کا دفتر سنبھال لیا۔ حصول رزق میں بہت محتاط تھے اور یہ احتیاط خوف خدا کی وجہ سے تھا۔ طبیعت میں نرمی اور زیردستوں کے ساتھ ماتحتوں کے ساتھ کچھ زیادہ شقت، بسااوقات دفتری عملے کو مجبوراً سرزنش کرنا پڑتی تھی تو ڈوگر صاحب ذرا دیر کے بعد بہت آہستگی سے کان کے قریب ہو کر کہتے تھے کہ اللہ والیو۔ جلال نہ دکھایا کرو۔ اللہ تعالیٰ ان کی برزخی دنیا کو شاداں کرے اور ان کے درجات میں نوری بلندیاں عطا فرمائے آمین۔ آج کی ہر سطر مرحومین کے نام ہے۔ دوستوں کی پے در پے جدائی تھی کہ ایک اور شخص شہر ویران میں جا بسا۔ تاریخ کا پورا دمک چمک کا باب تھا اس مرحوم کا گرامی قدر باپ بیرسٹر فرخ، غازی علم الدین شہید کا معرکۃ الآرا مقدمہ قائداعظم لڑ رہے تھے اور بیرسٹر فرخ کی سعادت کہ وہ معاون وکیل تھے۔ بیرسٹر فرخ کے سعادت مند فرزند جسٹس میاں آفتاب فرخ تھے۔ لاہور ہائیکورٹ سے ریٹائر ہوئے، اپنے معمولات میں بہت باقاعدہ، وقت کو قید کرنے کا فن اپنے نامو روالد سے وراثت میں پایا تھا۔ فوجداری کے وکیل تھے۔ پیشہ وری میں بہت دیانتدار، اپنا کام ایک محدود وقت میں کرنے کے مشاق تھے۔ احباب کے لیے نمونہ تھے۔ عدالتی اوقات کے بعد روزنامہ نوائے وقت کے دفتر جاتے تھے۔ مجید نظامی مرحوم سے دوستی نظریاتی پاکستان ہونے کے ناطے سے تھی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے بانی ارکان میں ان کا نام جلی سطور میں آتا تھا۔ احقر سے بہت زیادہ محبت کا رشتہ رکھتے تھے۔ میرے والدین کے ارتحال کے مواقع پر اس طرح شفقت کا انداز تھا کہ تعزیت کرنے والوں میں نہیں۔ تعزیت وصول کرنے والوں کی طرح فرشی تعزیتی نشست پر بیٹھے رہا کرتے تھے۔عزیز القدر پسرم محمد انس غازی نے جب لاہور ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری کا الیکشن لڑا تو میاں صاحب مرحوم نے پوری طرح سے سرپرستی فرمائی تھی۔ اگرچہ اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب نے دبائو ڈالا کہ آپ اپنی حمایت اور رائے بدلیں اور ایک حوالہ دیا کہ آپ تو طیارہ سازش کیس میں نوازشریف کے وکیل تھے۔ جسٹس آفتاب فرخ مرحوم نے جواب دیا کہ پیشہ وارانہ کام اور افراد کی پسندیدگی میں فرق ہوتا ہے۔ ہم نے پیشہ وارانہ کام میں آپ کا مقدمہ لڑا تھا۔ لیکن اس الیکشن میں اس باصلاحیت نوجوان محمد انس غازی کا منتخب ہونا بھی اہم کام ہے اور براہ کرم مجھے وعدہ خلافی پر مجبور مت کیجئے۔ علامہ احمد علی قصوری کے جنازے پر آئے تھے۔ قصوری مرحوم کی خدمات شمار کر رہے تھے اور آخر میں ایک خراج عقیدت کا جملہ کہا کہ سرزمین قصور نے عروس البلاد لاہور کو ایک علمی ہدیہ پیش کیا تھا اور یہ ہدیہ اہل لاہور ہی کے لیے نہیں، پورے پاکستان کے لیے خیر آفرین ثابت ہوا۔ آج یہی جملہ ان کی روح پر فتوح کی نذر ہے کہ ایک محب وطن نظریاتی باپ نے جسٹس آفتاب فرخ کی شکل میں قوم کو نظریاتی مسلمان اور نظریاتی پاکستانی کا ہدیہ پیش کیا اور یہ ہدیہ پاکستان کے لیے خیر افزا ثابت ہوا۔ اللہ اس جنت مکانی کو فردوس برین میں جگہ دے۔( آمین)