حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت ساڑھے سولہ روپے سے بڑھا کر اٹھارہ سو کر دی گئی ہے، اس سے گندم کی کاشت میں خسارہ کی شکایت کرنے والے کاشتکاروں میں گندم کا زیر کاشت رقبہ بڑھانے کا حوصلہ افزا رجحان پیداہو سکتا ہے تاہم فیصلے کے لئے منتخب کردہ وقت پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام گندم کی بوائی کے وقت کیا جاتا تو زیر کاشت رقبہ بڑھ جاتا اور گزشتہ برس کی طرح گندم کی کمی کا سامنا کرنے جیسے خدشات پیدا نہ ہوتے۔ پاکستان کا کل رقبہ79.6ملین ایکڑ ہے،جس میں سے 23.7ملین ایکڑ زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔یہ کل رقبے کا 28فیصد بنتا ہے۔اس میں سے بھی8ملین ایکڑ رقبہ زیرِ کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے،حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔اس کا ماحول اورپانچوںموسم زراعت کے لئے بہترین زونز کی حیثیت رکھتے ہیں۔وطن عزیز میں ہمہ قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔اس کی 60فیصد سے زاید آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ملک کی مجموعی قومی پیداوارمیں زراعت کا حصہ 21فیصد ہے۔زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اورصنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا 45فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔کورونا وبا کے دوران زرعی شعبے نے ملک میں غذائی بحران پیدا نہیں ہونے دیا۔ پاکستان کا اہم شعبہ ہونے کے باوجودزراعت بری طرح نظر انداز ہورہی ہے جس کے نتیجہ میں اس کو گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے۔زراعت کے شعبے سے وابستہ آبادی کا 50فیصد بے زمین ہاریوں پر مشتمل ہے اور یہ غربت سے بری طرح متاثر ہیں۔ جاگیر دارانہ نظام استحصالی نظام بن گیا ہے۔ کسانوں کو پانی کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ آبپاشی کی سہولتیں ناکافی ہیں۔بھارت کی طرف سے آبی دہشت گردی ہوتی رہتی ہے۔دریاؤں کے پانی پر اس کا کنٹرول ہے۔یہ جب چاہتا ہے ،پاکستان میں سیلاب اور قحط لے آتا ہے۔ اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں۔ مہنگی ہونے کے ساتھ ،جعلی زرعی ادویات پاکستانی کسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ سودی زرعی قرضے اور وہ بھی زیادہ شرح سود پر،غریب کسان کاایک سنگین مسئلہ ہے۔ کسانوں کو ان کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی۔ یہ اپنی آمدن سے اپنے روزمرہ کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے۔گندم جیسی بنیادی جنس کی پیداوار میں کمی کے پس پردہ یہ مسائل ہیں۔ حکومت کے پاس ضروری غذائی اشیاء ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات نہیں ہیں۔اس طرح تقسیم کا نظام بھی ناقص ہے۔پاکستان میںتقریباً ہر سال 20ملین ٹن گندم پیدا کی جاتی ہے ۔کسان نصف پیداوار ذاتی استعمال اور جانوروں کی خوراک کے لیے رکھتے ہیں جبکہ حکومت پنجاب مقررہ قیمت (1300روپے کی 40کلوگندم) پرباقی گندم کا 40فیصد خرید لیتی تاکہ اس کا ذخیرہ رکھا جائے ،سال گزشتہ حکومت نے گندم کی فصل مارکیٹ میں آنے کے بعد اس کے نرخ 1650روپے کر دیئے ،اس کا فایدہ ذخیرہ اندوزوں نے اٹھایا۔یہ نظام جو کبھی خوراک کی سیکورٹی کو یقینی بناتا تھا ،اب اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ لگ بھگ چاروں صوبوں کی حکومتیں گندم کا ذخیرہ بند گوداموں کی بجائے تھیلوں میں رکھتی ہیں جس سے یہ اکثر خراب ہوجاتی ہے۔ کسان برآمد کے مواقع سے بڑی حد تک زیادہ قیمت منافع پر گندم فروخت نہیں کر پاتے اورحکومت ہر سال گندم خریدنے کے لیے بھاری رقوم کاقرض لینے پر مجبور ہوتی ہے۔ ہر سال 35ارب روپے(218 ملین امریکی ڈالر )کے حساب سے ،گندم پرسبسڈی کی رقم زراعت میں دیگر تمام سرکاری اخراجات بشمول تحقیق وترقی کی نسبت تین گنا سے زیادہ ہے۔ زرعی حوالے سے قوانین کا کردار بہت اہم ہے۔ کئی اسٹیک ہولڈر خریداری کے حالیہ ماڈل میں کچھ نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں۔پاکستان زرعی اتحاد جو ایک غیر تجارتی ادارہ ہیاس کا کہنا ہیکہ حکومتی سرمایہ کاری کو زیادہ جدید طریقے سے ہدف بنایا جاسکتاہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر گندم کی قیمت میں اضافہ ہوجائے تو آٹا مہنگا ہو گا اور لوگ حکومت سے بد دل ہوسکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مارکیٹ کو کام کرنے دینا چاہیے۔ غریب صارفین کے لیے گندم پربراہ راست رعایت دی جاسکتی ہے۔زراعت کے ساتھ لائیو سٹاک کا شعبہ جڑا ہوا ہے ۔دودھ اور گوشت کی مارکیٹنگ ، پانی کی فیس کی ادائیگی (قیمتی وسائل کے بہتر انتظام وانصرام کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ) اور زرعی کاروبار کی امداد میں ہم آہنگی پیدا کرنے ( خوراک کی ہئیت میں ترقی بڑھانے کے لیے ) سمارٹپروگرام کی جانب سے دیگر شعبہ جاتی اصلاحات پر غور کیاگیاہے۔عالمی بینک پراجیکٹ کی ٹاسک ٹیم کہتی ہے کہ روایتی فصلوں سے زیادہ اہمیت کی حامل زراعت، نجی شعبہ کی ترقی کی جانب ایک مثالی تبدیلی کی علامتہے لیکن یہ بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے وسائل کا زیادہ بہتر استعمال بھی ہے۔ اس کا تعلق عوامی پالیسیوں اوراخراجات کیجائزہ سے ہے تاکہ غربت کو کم کیاجائے اوراستحکام اورغذائیت کو زیادہ بہتر بنایا جائے۔ٹیکسٹائل سمیت ہمارے وہ شعبے جن سے زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے وہ زراعت سے متعلق ہیں اس لئے زراعت کو ترقی دینا ضروری ہے۔زراعت ایک نظر انداز شعبہ ہے جس پر موجودہ حکومت کے اڑھائی برسوں میں بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا سکی۔فیصلے کب نتیجہ خیز ہوتے ہیں اس بارے سوچا نہیں گیا۔گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ اگر پہلے کر دیا جاتا تو کاشت کار زیادہ بڑے پیمانے پر گندم کی بوائی کرتے۔