سیاست کے تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔آج تک سیاست کی تو باگیں ہی کسی کے قابو میں نہیں آئیں۔ آج میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ سیاست کو چھوڑ کے اپنی مدھم ہوتی ہوئی ثقافت پر بات کی جائے۔ وہ ثقافت جو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی وجہ سے اڑنے ولی دھول دھندلاتی جا رہی ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان، اور خیبر پختونخوا کی زرخیز مٹی محبتوں، روایتوں اور داستانوں سے گْندھی پڑی ہے۔کہیں سوہنی مہینوال، کہیں سسی پنوں، کہیں عمر ماروی، کہیں لیلیٰ مجنوں کی کہانیوں کی مہک باغِ دل پر کلیوں کی صورت چٹکتی رہتی ہے۔ پہلے تو تھوڑی سی تعریف ثقافت کی ہوجائے۔ بنیادی طور پر ثقافت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں کسی چیز یا ذات کی ذہنی و جسمانی نشو و نما اور اس کی اصلاح کرنے کے ہیں۔ ثقافت کو انگریزی میں کلچر کہا جاتا ہے جو ان دنوں ہمارے ہاں بہت تواتر سے استعمال ہو رہا ہے۔ کلچر کا لفظ دراصل جرمن زبان کلٹور سے ماخوذ ہے۔ ثقافت کا بنیادی تعلق ہر قسم کے علوم و فنون، عقائد، قوانین، عبادات اور رسم و رواج سے جڑا ہے۔ ثقافت دراصل کسی بھی معاشرے کا وہ حصّہ ہے جسے وہاں کے رہنے والے لوگوں نے تشکیل دیا ہوتا ہے۔ جبکہ سیاست ایک ایسی سائنس ہے جس میں مختلف گروہوں کے طاقتور لوگ عام لوگوں کے لیے فیصلے کرتے ہیں۔ ثقافت ایک کل ہے جبکہ سیاست ایک جْز ہے۔ لیں جی میں پھر چلتے چلتے سیاست کی طرف لڑھک گئے جبکہ آج مجھے صرف ثقافت پر بات کرنی ہے۔ ثقافت اور تہذیب جو نظر آتی ہے وہ ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ ہزاروں سال پہلے انسان غاروں، جنگلوں اور کھوؤں میں رہتا تھا۔ زندگی مال اور عزت کے تحفظ کا با قاعدہ کوئی نظام نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ جب انسانوں نے انسانوں کے ساتھ مل کر دینا شروع کیا تو کچھ چھوٹے چھوٹے قواعد و ضوابط کو اپنانے کی شروعات کی۔ ازاں بعد چھوٹے چھوٹے معاشروں نے جنم لینا، جہاں قوانین اور دستور بنتے گئے۔ یوں معاشروں میں تہذیب اور ثقافت کا آغاز ہوا۔ ریگستانوں میں بسنے والوں نے اونٹ اور بکریاں پالنے کا پیشہ اختیار کر لیا۔ ساحلوں کے گرد رہنے والے مچھلیاں پکڑ کر گزر بسر کرنے لگے اور مچھیرے اور ملاح کہلانے لگے۔ دریاؤں کے قریب بسنے والے انسانوں نے مل جل کر رہنا سیکھا تو تحمل اور صبر کے ساتھ ساتھ انہوں نے کھیتی باڑی کا پیشہ اپنا لیا۔ دریاؤں نے اپنی وادیوں میں زرخیز زمین بچھائی تو منظم تہذیب و تمدن کا دور شروع ہوا۔ 1922 میں پاکستان کے ضلع ساہیوال کے قریب ہڑپہ کے مقام پر کھدائی کی گئی تو ہزاروں سال پْرانی تہذیب کے آثار ملے۔ اسی طرح سندھ میں لاڑکانہ کے قریب موہنجوڈارو کے مقام پر بہت پرانی تہذیب کا پتہ ملتا ہے جو تقریباً 5000 سال پرانی تہذیب ہے۔ اس کا تعلق دجلہ و فرات (عراق) اور دریائے نیل کی تہذیب سے ہے۔ دیکھا جائے تو ان دونوں شہروں میں 650کلو میٹر کا لمبا فاصلہ لیکن دونوں تہذیبوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ موہنجوڈارو کا مطلب ہے ’’مردوں کا شہر‘‘۔ یہ شہر تقریباً 2500قبل قدرتی آفات زلزلے یا پھر سیلاب کی تباہ کاریوں سے بردبادی کا شکار ہو گئے۔ وادیء سندھ کی یہ قیدم تہذیب ایک جدید شہر کا سا منصوبہ پیش کرتی تھی۔ موہنجوڈارو اور ہڑپہ ہم عصر شہر تھے۔ دونوں رقبے اور خصوصیت کے لحاظ سے ملتے جلتے اور کافی گنجان آباد تھے۔ فن تعمیر کو دیکھیں تو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ عمارتیں پْختہ اور کشادہ تھیں۔ یاد رکھیں کشادہ گھر اور عمارتیں ہمیشہ بڑے دل کی نشانی ہوتی ہیں۔ گھروں میں پانی کی نکاسی کا عمدہ انتظام تھا۔ نالیاں پکی تھیں جو اوپر سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ آج لاڑکانہ کی قریبی بستیوں کو دیکھیں تو زبوں حالی سی زبوں حالی ہے۔ نالیاں کھلی ہوئی اور کچرے سے لدی ہوئی ہیں۔ کاش!ہم نے اپنی ثقافت و تہذیب سے کچھ سیکھا ہوتا۔ اس پر تو بہت لکھا جاسکتا ہے ۔پاکستان میں مختلف دور دراز کے علاقوں میں بسے ایرانی، تورانی، وسطی ایشائی، عراقی، ترکی، افغانی گروہوں نے اپنی رسم و رواج، تہوار، لباس خوراک اور زندگی گزارنے کے انداز اپنائے۔ آج ملک میں ایک مخلوط ثقافت نظر آتی ہے۔ مگر ہمیں دھیان میں رکھنا ہے کہ ہم اپنی مقامی اور دوسری ثقافتوں سے ہمیشہ بہترین اور کشادہ چیزیں اپنائیں تا کہ محبت اور یک جہتی کا عمل مضبوط ہو۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ وادیء سندھ کی تہذیب جو 5000سال پرانی ہے آج کے سندھ کی نئی بستیاں اگر اس کے نمونے پر ہی بنائی جاتیں تو سندھ کی اتنی بربادی نہ ہوتی۔ لیکن آٹھویں ترمیم کے بعد بھی سندھ کے فنڈز نجانے کون ہیک کر لیتا ہے اور عوام جانوروں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ موہنجوڈارو کی پرانی قدیم گلیاں چوڑی چوڑی اور سیدھی تھیں۔ گلیوں کی چوڑائی 33فٹ تک تھی۔ نکاسئی آب کا نظام کتنا شاندار اور جدید تھا۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا اس وقت کے لوگ لالچی نہیں تھے اور چیزوں کو باقاعدہ فکرو عمل کے پْل سے گزر کر تعمیر کیا کرتے تھے۔ شہروں کو باقاعدہ بازاروں، گلیوں اور محلوں کی صورت میں بسایا گیا تھا۔ تعمیرات کا پختہ ذوق اور ایمانداری اور محبت سے بنائی گئی عمارتوں کے فرش بھی پختہ اینٹوں سے بنائے گئے تھے۔ گھروں کے اندر غسل خانے تھے اور محلوں میں حمام بنائے گئے تھے۔ یہ ثقافت اور تہذیب پانچ ہزار سال پہلے کے باسیوں کے ذوق، شعور اور دیانت کا پتہ دیتی ہے۔ وہاں کنویں بھی تھے جنہیں کٹاؤ اور آلودگی سے بچانے کے لیے پْختہ کیا جاتا تھا۔ گھروں کے نیچے موسم کی شدت سے بچنے کو تہہ خانے بھی تھے جہاں سے روشنی اور ہوا کے گزرنے کا اہتمام بھی موجود تھا۔ یقیناً یہ تہذیب اور ثقافت فن تعمیر کے حوالے سے بہت ترقی یافتہ تھی۔ کاش! اے کاش سندھ کے اربابِ اختیار اب ہی توجہ دے دیں۔