حیرانی عطا تارڑ کی اچانک گرفتاری اور رہائی پر نہیں بلکہ اس مضحکہ خیز جھوٹ پر ہے جو سرکاری ترجمانوں نے اس صورت حال پر بولا۔ کہا کہ عطا تارڑ خود ہی پولیس وین میں بیٹھ گئے تھے اور پھر خود ہی تھانے پہنچ گئے۔ کمال ہے صاحب کمال ہے۔ ایسا خود کار نظام ہے کہ مقتول خود ہی قاتل کی گولیوں کے سامنے آ جاتا ہے اور لٹنے والا خود ہی ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹ جاتا ہے۔ عوام بھی خود ہی مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔ آخر انہیں سبزیاں‘ دالیں‘ گھی‘ گوشت خریدنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے۔ کون کہتا ہے کہ بیمار ہوں۔ دوائیں خریدنی پڑیں‘ سارے فساد کی جڑ یہ غریب غربا‘ یہ سفید پوش‘ یہ متوسط طبقے والے پاکستانی ہیں۔ انہیں جینے کا حق دیا کس نے ہے۔ خود ہی جیئے جاتے ہیں۔ جس معاشرے میں مقتول گرفتار‘ مجبور مقہور پر ظلم‘ جبر‘ قہر اور زیادتی کا ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگے‘ وہاں جھوٹ پر دھان بن کر مسند اقتدار و اختیار پر بیٹھ جاتا ہے اور سرکاری ترجمانوں کا ہجوم بلاتاخیر بس جھوٹ کو پھیلانے‘ جھوٹ کو بچانے اور جھوٹ کو چمکانے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے اور جھوٹ کی اس ہم نوائی پر فخر و انبساط کا اعتراف احمد شمیم کے الفاظ میں کچھ اس طرح کرتا ہے: مجھے بلایا گیا جھوٹ بولنے کے لیے یہی سزا بھی میری ہے جو میرا پیشہ ہے گئے دنوں میں احمد شمیم کا یہ شعر مجھے منو بھائی نے سنایا تھا۔ ریڈیو پاکستان کے سٹوڈیو میں بیٹھے ہوئے۔ جب حکومت وقت کی کارگزاریوں پر آف دی ریکارڈ سچ بولا جارہا تھا ،تو ایک لمحے کو میں نے کہا‘ پروگرام شروع ہونے میں چند منٹ ہی باقی ہیں اپنے اپنے سچ کی پوٹلیوں کو باندھ کر فی الحال کہیں طاق نسیاں پر رکھ دیں۔ سرکار کے ریڈیو پر بیٹھ کر صرف جھوٹ کے دائرے میں خوش گفتاری کی اجازت ہے۔ چلیں صریحاً جھوٹ نہ سہی تو اس میں 25 فیصد سچ بولیں یا پھر خاموش رہیں اور مائیک ساتھ والے ساتھی کو دے دیں۔ منو بھائی اس پر مسکرائے اور بولے‘ میرا دوست احمد شمیم جو سیکرٹری اطلاعات رہا اور کیا کمال کا شاعر تھا۔ ’کبھی ہم خوب صورت تھے‘ والی نظم کہنے والا شاعر‘ اسی نے ایک ایسا شعر کہا کہ بس آج ہمارے حسب حال ہے۔ پھر وہی شعر سنایا۔ ’’مجھے بلایا گیا جھوٹ بولنے کے لیے‘‘۔ مگر منو بھائی صاحب کمال تھے اور سچ کو ڈھکے چھپے پیرائے میں کہہ گزرنے کے فن سے آشنا تھے۔ ریڈیو کی آن آف دی ریکارڈ اور آن دی ریکارڈ دونوں طرح کی نشستوں میں بہت کچھ سیکھا۔ 13 فروری کو دنیا بھر میں ریڈیو کا دن بھی منایا گیا۔ لگے ہاتھوں ان سنہری دنوں کو ذرا یاد کرلیں جو ہم نے بھی ریڈیو پاکستان کے داستانوی ماحول میں گزارے۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے مین گیٹ سے داخل ہوتے ہی آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ باہر کی ہنگامہ خیز دنیا سے ہاتھ چھڑا‘ قدامت سے بھری ہوئی دھیمی اور قناعت پسند دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہاں کام کرنے والے تمام درجات کے افسران‘ براڈ کاسٹر‘ چائے پلانے والے مددگار افراد کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ زندگی دھیمے اور قناعت پسندی کے سروں کی لے پر رقصاں ہے۔ قدیم زمانوں کی دھوپ‘ ریڈیو پاکستان کے سرسبز لان اور ان کی پرشکوہ عمارت کو جگمگاتی ہے۔ ریڈیو کے ریکارڈنگ سٹوڈیو کو ریڈیو پروڈیوسرز کے دفاتر‘ سب کے سب ایک قدامت کی خوشبو میں لپٹے ہوئے ہیں۔ یہاں اپنے وقت عظیم فنکاروں‘ ادیبوں‘ شاعروں اور صداکاروں کی مہک گھلی ہوئی ہے۔ ابھی ابھی اے حمید یہاں سے گزرے ہیں‘ اشفاق احمد‘ تلقین شاہ کے کردار میں رنگ بھر رہے ہیں۔ صوفی تبسم نور جہاں کو نئے ملی نغمے کے بول سنا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ صحافت و ادب کا آخری داستانوی کردار منو بھائی تھے جن کے قدموں کی چاپ ابھی تک ریڈیو کے تاریک کوریڈور سے آ رہی ہے۔ چند برس پہلے موت کو ہاتھ لگا کر منو بھائی ایک بار پھر ریڈیو آئے تو ان سے یاد باغ میں ان کے نام کا پودا لگوانے کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی باوقار عمارت کے پچھواڑے میں یادوں سے بھرا ہوا ایک یاد باغ ہے۔ کوئی پودا نور جہاں نے اپنے سریلے ہاتھوں سے لگایا۔ کوئی پودا بارش اور سماوار کے عشق میں ڈوبے اے حمید نے لگایا۔ کوئی پودا صوفی تبسم کے اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے کی یاد دلاتا ہے۔ یہاں قدیم زمانوں کے خزانے بکھرے پڑے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی لائبریری‘ اپنے وقت کے مشاہیر کی یادگار آوازوں کا خزانہ ہے۔ کارپوریٹ ٹی وی چینلوں کے ہنگامے میں ریڈیو پاکستان کی قدامت بھری فضا بہت معتبر اور قیمتی ہے۔ ان آوازوں کے خزانے ان کے پاس محفوظ ہیں‘ جو اب کبھی لوٹ کے آنے کی نہیں۔ اب میں ریڈیو پروگرام نہیں کرتی۔ ریڈیو ایک رومانس کا نام ہے اور رومانس قوس قزح کی طرح مختصر مدت کا ہوتا ہے۔ ہاں کسی روز ملنے ضرور جائوں گی۔ یاد باغ کے پودوں سے ملنے ریڈیو کے دوستوں کے ساتھ چائے کا ایک کپ پینے اور دھیمی‘ قناعت پسند‘ قدامت سے بھری فضا میں کچھ دیر سانس لینے کے لیے!! ٭٭٭٭٭