خدا کا شکر ہے کہ وطن عزیز کی فضائوں میں چھایا ہوا ہیجان قدرے کم ہوا ہے۔حیرانگی کی بات ہے پاکستانی قوم کس طرح اغیار کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے ۔کیا ہم واقعی اتنے غیر دانشمند ہیں کہ ہم اغیار کی چالوں کو سمجھنے کی بجائے ان کو بلا چون و چرا عملی جامہ پہناتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے مغربی مفکرین ہماری فالٹ لانز کو خوب جانتے ہیں اور اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف مسالک امن اور باہمی بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ہمارے دشمن خوب جانتے ہیں کہ بوقت ضرورت کس طرح ان کے گنتی کے چند اختلافات کو دینی ہے ۔ ہمارے دشمن ہمارے اختلافات کے بارے میں گہری معلومات رکھتے ہیں اور وہ ہمار ی فرقہ بندیوں کو ہمارے عام لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ حکومت کا یہ کام نہیں ہونا چاہیے کہ وہ سادہ لوح عوام پر لاٹھی چارج کرے اور گولیاں چلائے۔ہمارے اداروں کی اصل کامیابی تو یہ ہو گی کہ وہ اپنی انٹیلی ایجنسیوں کے ذریعے اس خفیہ ہاتھ کا پتہ چلائے جو ہمارے چند لوگوں کو خریدتا ہے اور اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ان زرخرید لیڈروں کو رنگے ہاتھوں پکڑا جائے اور ان کی اصل حقیقت عوام کے سامنے رکھی جائے۔ ہمارے وزیر داخلہ نے تو بڑے فخر سے یہ بتایا کہ مذاکرات کے دوران ان پر آشکار ہوا کہ کالعدم تنظیم تو ہنگاموں کے لئے پوری طرح تیار تھی حکومتی تیاری مکمل نہ تھی اگر تمام تر تنظیم اور جاسوسی اداروں کی موجودگی میں ہماری تیاری مکمل نہ تھی تو یہ کس کا قصور ہے۔ کیا وزیر داخلہ کو اس مجرمانہ غفلت کا جواب نہیں دینا چاہیے۔پہلے پہلے تو وزیر داخلہ بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ اختلاف کرنے والوں کو روند ڈالیں گے لیکن جب انہیں عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ انہیں جلد بازی میں کالعدم قرار دیے جانے والی جماعت سے مذاکرات کے میز پر آنا پڑا۔ اللہ کا شکر ہے کہ سمجھدار مذہبی حلقوں نے ان کی مدد کی اور حالات پر قابو پایا جا سکا۔ معاہدہ ہونے کے بعد مذہبی رہنمائوں کی موجودگی میں جب وہ معاہدے کے نکات پڑھ رہے تو ان کی آواز سے ان کی مشکل کا اندازہ ہو رہا تھا۔ ابھی تک تو عمران حکومت کا طرہ امتیاز یہی ہے کہ ہر کام بغیر سوچے سمجھے کیا جاتا ہے اور اقدامات لینے کے بعد اس کے ردعمل کے بارے میں غور کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ بے تدبیری ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی بھی حتی الوسع کوشش کی جاتی ہے اور اپوزیشن کے ہر سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ انہیں این آر نہیں دیا جائے گا۔تین سال گزرنے کے باوجود اپنی ناقص کارکردگی کا سارا بوجھ پچھلی حکومتوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ پٹرول کا بحران‘ آٹے کا بحران‘ چینی کا بحران یعنی کسی بھی بحران سے حکومت نے سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی کسی انکوائری کو نتیجہ خیز بنایا گیا۔ چونکہ کسی بھی بحران کے ذمے داروں کو آج تک سزا نہیں دی گئی اس لئے ہر چند ماہ کے بعد ایک اور بحران حکومت کا منتظر ہوتا ہے۔ چینی اور آٹے کی قیمتیں رمضان مبارک میں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اسکے علاوہ چکن‘ گوشت‘ سبزی اور ضرورت کی ہر چیز غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ رمضان میں وہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں کی ذاتی طور پر نگرانی کریں گے۔ وزیر اعظم اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک آدمی ذاتی طور پر کچھ نہیں کر سکتا۔اداروں کو روبہ عمل آنا پڑے گا۔ اچھی ٹیم تشکیل دینا پڑے گی اور اسے عمل کرنے کی آزادی دینا ہو گی۔ وہ اچھی ٹیم بنائیں اور اس کو جوابدہ ٹھہرائیں۔اگر وہ خود ہی ہر کام کریں گے تو پھر جوابدہ کون ہو گا۔ وزیر اعظم کو خود اپنی کارکردگی کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ انہیں جواب دینا چاہیے کہ ان کے وزراء نے کس کی اجازت سے کالعدم جماعت سے ایک ایسا معاہدہ کیا جس پہ عمل ہی ممکن نہ تھا۔ ان وزراء کے خلاف اب تک کیوں کارروائی نہیں کی گئی۔جس طرح قومی اسمبلی کے توسط سے یہ مسئلہ حل کیا گیا۔ بحران پیدا ہونے سے پہلے یہ حکمت عملی کیوں نہ اپنائی گئی۔ کیا حکومت خطرناک پبلک پریشر کے بغیر کوئی کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کے اتنے اہم اجلاس سے وزیر اعظم کی غیر حاضری بھی محل نظر ہے۔ اگر وہ اس اجلاس سے خطاب کرتے اور اپنا نقطہ نظر بیان کرتے تو ان کی شان میں کوئی کمی نہ آتی بلکہ اضافہ ہی ہوتا۔عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں باقاعدہ شامل ہوا کریں گے اور خود سوالوں کے جواب دیا کریں گے۔ اب یا تو ان کے پاس سوالوں کے جواب نہیں ہیں یا وہ اپوزیشن سے ڈرتے ہیں۔ اگر انہوں نے نواز شریف کا اسمبلی سے غیر حاضری کا ریکارڈ توڑ نہیں دیا تو برابر ضرور کر دیا ہے۔ انہیں اپنے طرز حکومت پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ہرچہ دانا کند‘کند ناداں لیک بعداز خرابیٔ بسیار۔ دوسری طرف ٹی ایل پی کے جدوجہد کے دوران دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ پاکستان میں خون خرابی کے ہنگام چند قومی رہنما جس طرح فرحان و شادان نظر آئے وہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت کی مخالفت میں قومی مفاد بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ن لیگ کے دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت نے جس طرح جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا وہ باعث ندامت ہی ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے تو اس اہم اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور بلاول بھٹو نے یہ کہنا بھی مناسب سمجھا کہ جس نے یہ بحران پیدا کیا ہے وہی اسے حل کرے۔ کیا یہ بیان کسی طرح بھی قومی سوچ کا عکاس ہے۔ اگر اس قوم کے مسائل حل کرنے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے تو وہ پاکستان میں کیا کر رہے ہیں۔ اپنے لندن والے گھر میں جائیں اور آرام کریں۔ ایک سابق وزیر اعظم غنڈہ گردی کی جیتی جاگتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کبھی حریف جماعت کے کارکنوں کو مارپیٹ کی دھمکی دیتے ہیں اور کبھی قومی اسمبلی کے سپیکر کو جوتے مارنے کی بات کرتے ہیں۔وہ اپنے کئے پر نادم بھی نہیں نہ معذرت پر آمادہ۔لوگ اپنی غلطیوں سے نہیں بلکہ اپنی غلطی پر بضد رہنے سے تباہ ہوتے ہیں۔