آدمی عجیب ہے، سیکھتا ہی نہیں۔ افتاد آپڑے تو گھبرا کر آسان راستے کی آرزو پالتا ہے۔ قوانینِ قدرت سے ہم آہنگی اور دیر پا منصوبہ بندی کی فکرطوفان اوربحران میں بھی جاگتی نہیں۔ مسٹر فاؤچی الرجی اور وائرس کا انسداد کرنے والے امریکی ادارے کے سربراہ ہیں۔ انیس برس سے چلے آتے ہیں۔ دوسری احتیاطوں کے علاوہ وہ سب لوگوں کو نیند پوری کرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر پچھلے کچھ دنوں سے 79سالہ معالج خود چند گھنٹے ہی سوتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے چینل پر نمودار ہوتے ہیں اور کرید کرید کر پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ امریکی میڈیا وائرس کے خلاف جنگ میں شریک ہے۔ صحافت کا کام صرف تنقید اور مسائل کی سنگینی اجاگرکرنا نہیں۔ مثبت پہلو دکھانا، ہمت بیدار کرنا اور ماہرین کی مدد سے تجاویز پیش کرنا بھی ہے۔چالیس سالہ کا تجربہ رکھنے والے ایک ممتاز امریکی صحافی نے اخبار نویسوں کے نام ایک پیغام میں کہا: یہ نظریہ نہایت سطحی ہے کہ کتّے کا آدمی کو کاٹ لینا کوئی خبر نہیں بلکہ آدمی کا کتّے کو کاٹ لینا۔یہ کہ ہمارا کام صرف عوامی احساسات اور خدشات کا اظہار ہے۔ دنیا میں بہت کچھ اچھا بھی ہوتاہے۔ ہر روز لاکھوں آدمی غربت کی سطح سے اوپر اٹھتے ہیں۔ بہت سے امراض کا خاتمہ ہو چکا اور انسانیت بعض میدانوں میں آگے بڑھی ہے۔ امید برقرار رہے تو زیادہ آمادگی سے مقابلہ کیا جا سکتاہے۔ الفاظ نہیں، یہ ان کے پیغام کا خلاصہ ہے۔ ان کی آواز میں احساس اور درد کی جھلک ہے۔ یہ ادراک بھی کہ صحافی اگر مثبت پہلوؤں کو ملحوظ رکھیں توزندگی بہتر ہوتی جائے گی۔ قائدِ اعظم نے ایک بہت مختصر جملے میں اس نکتے کو واضح کیا تھا ’’صحافت اگرتعمیری ہو تو مثبت کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔‘‘ ان کا واسطہ گالیاں بکنے اور الزام تراشی کرنے والے کانگرسی پریس کے علاوہ ان مسلمان صحافیوں سے بھی تھا، جو انہیں کافرِ اعظم قرار دینے والے بیانات اجاگر کرتے۔ مسٹر فاؤچی کا کہنا ہے کہ کورونا کی نمود کے بعد زندگی ویسی نہیں رہے گی، جیسی کہ وہ تھی۔ آخری بار ایک دوسری طرح کا بحران گیارہ ستمبر2001ء کو پیدا ہوا تھا، جب نیویارک کے جڑواں مینار گرے۔ فوراً ہی جنرل حمید گل مرحوم کی خدمت میں یہ ناچیز حاضر ہوا۔ بیس پچیس منٹ مجھ سے تبادلہ خیال کیا اور ٹھیک یہی جملہ عرض کیا تھا ’’اب یہ دنیا ویسی نہیں رہے گی‘‘ انیس برس تک دنیا کے متعدد ممالک بحران کا شکار رہے۔ تھوڑے سے وقفے کے ساتھ امریکی افواج افغانستان اور عراق میں داخل ہوئیں۔ باقی تاریخ ہے۔ طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان معاہدے کے بعد آج اس دور کے سمٹنے کا وقت آیا ہے تو ایک اور خطرناک بحران کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق کم از کم 23ہزار اور زیادہ سے زیادہ 40ہزار سال بیتے ہیں کہ سوچنے والا جانور یعنی آدم زاد اس خاک دان میں آباد ہے، ہومو سیپین۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اللہ نے اس دنیا میں اتارے۔ ان میں سے ہر ایک کو آخر کار ان کے سامنے پیش ہونا ہے۔ انہیں غور و فکر کی تلقین کی گئی۔ ایک کے بعد دوسرے پیغمبرؑ، ختم المرسلینؐ کے بعد ایک کے بعد دوسرے صاحبِ علم نے انسانوں کو راستہ دکھانے کی کوشش کی مگر جیسا کہ اللہ کی آخری کتاب کہتی ہے:کم ہی لوگ غور کیا کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم کہتاہے کہ ہواؤں کے بہنے، سمندروں میں پہاڑ ایسے جہازوں کے حرکت کرنے اور ان بادلوں میں خالق کی نشانیاں ہیں جو زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہر جاتے ہیں۔ قدرت کے قوانین ہیں۔ ان کی پیروی میں کشادگی، افزائش،نمود اور اطمینانِ قلب ہے۔انحراف میں اضطراب، بے چینی، تنگی، حتیٰ کہ وبائیں اور خوں ریزی۔ اپنے بندوں سے خالق کا مطالبہ یہ ہے کہ حرام اور حلال میں وہ حساس رہیں۔ صفائی طرزِ زندگی ہونا چاہئیے اور رفعت و بالیدگی کا تعلق علم سے ہے۔ تقاضا آدمی سے یہ ہے کہ وہ سائنسی اندازِ فکر اختیار کرے۔ سیاہ کو سفید اورکذب و ریا کو صداقت سے الگ کرنے کی استطاعت پیدا کرے۔ ابھی کل تک ایک حدیثِ مبارکہ ذہن پہ ثبت تھی ’’لکل داء ٍدوائ‘‘ہر مرض کی دوا اتاری گئی۔ کل عصرِ رواں کے عارف کا ایک پیغام سنا۔ اس میں ایک اور حدیث کا حوالہ ہے:تین ہزار بیماریاں اتاری گئیں۔ ان میں سے دو ہزار کا علاج دوا سے ممکن ہے۔ جب کہ ایک ہزار کا صرف دعا سے۔ وہ دعا یہ ہے:بِسمِ اللَّہِ الَّذِی لَا یَضْرّْ مَعَ اسمِہِ شَیء فِی الاَرضِ وَلَا فِی السَّمَاء ِ وَھْوَ السَّمِیعْ العَلِیمْ۔ لا حول ولا قوۃ الا بااللہ العلی العظیم۔اللّھم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وصلم۔ شروع اللہ سے، جس کے نام سے آسمان اور زمین کی کوئی چیز ضرر نہیں پہنچا سکتی اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ اس کے سوا کسی کی کوئی قوت ہے نہ ارادہ۔ سلامتی ہو محمدؐ، ان کی آل اور اصحاب پر۔ بنیادی دعا تو اصل میں پہلے آدھے حصے میں ہے۔ آدمی پھر بے بسی کا اعتراف کرتا ہے کہ قوت تو کیا، وہ اپنے ارادے کا مالک بھی نہیں۔ یہ بھی توفیق سے نصیب ہوتا ہے۔ اصحابؓ، آلِ محمد اور رحمتہ اللعالمینؐ پر درود اس لیے کہ قبولیت آسان ہو۔ کورونا ان امراض میں نہیں، جن کا تعلق محض دعا سے ہے۔ ویکسین دریافت ہو چکی۔ ابتدائی تجربات کر لیے گئے۔ اندازہ ہے کہ دو تین ماہ میں دوا مارکیٹ میں دستیاب ہو گی۔ممکن ہے، کچھ زیادہ وقت لگے۔دوا ایجاد کرنے والی جرمن کمپنی کو پیشکش ہوئی کہ یہ دوا امریکیوں کے لیے مختص کر دی جائے مگر کمپنی کے سربراہ نے انکار کر دیا او رکہا کہ یہ تمام قوموں کے لیے ہوگی۔کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک عالمی فنڈ قائم کر کے دوا کے حقوق خرید لیے جائیں۔ سینکڑوں کمپنیاں بیک وقت اس دوا کی تیاری میں شریک ہو جائیں۔ شاید اس طرح نجات کی گھڑی جلد آپہنچے۔ دوا دارو کا مطلب بہرحال یہ نہیں کہ آدمی دوا، پرہیز، صدقے اور صفائی سے بے نیاز ہو جائے۔ حرام اور حلال کی پرواہ نہ کرے۔ کورونا چمگادڑ سے پھیلا یا پینگولین سے۔ سائنسدان دریافت کر لیں گے۔ اس وقت ترجیحِ اوّل دوا کی تیاری ہے اور تمام حکومتوں کو اس میں شریک ہونا چاہئیے۔ آئی ایم ایف نے متاثرہ ممالک کو ایک ہزار ارب ڈالر قرض فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جرمن کمپنی سے ویکسین کے حقوق خریدنے پر، ظاہر ہے، اس سے بہت کم خرچ ہوگا۔کیا جرمن حکومت کو اس پر قانون سازی کے لیے آمادہ کیا جا سکتاہے؟ رائلٹی اس کمپنی کو ادا کی جا سکتی ہے۔ حکومتیں اور بین الاقوامی قوانین کے ماہرین زیادہ احسن طور پر معاملے سے نمٹ سکتے ہیں۔ سابق وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے مشورہ دیا ہے کہ کورونا کے لیے مختص ہسپتال فوج کے حوالے کر دیے جائیں۔ممکن ہے، ایسا ہی کرنا پڑے۔ سوال یہ ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھا کر سول طبی اداروں کو مضبوط بنانے کی کوشش کیوں نہ کی جائے۔آدمی عجیب ہے، سیکھتا ہی نہیں۔ افتاد آپڑے تو گھبرا کر آسان راستے کی آرزو پالتا ہے۔ قوانینِ قدرت سے ہم آہنگی اور دیر پا منصوبہ بندی کی فکرطوفان اوربحران میں بھی جاگتی نہیں۔ پس تحریر:کرونا وائرس کے انسداد پر سندھ اور مرکزی حکومت میں بیانات کی جنگ افسوسناک ہے۔ ایسے ہولناک خطرات میں بچگانہ پن سے گریز کرنا چاہئے۔