نیوزی لینڈ کی مہربان دل وزیر اعظم نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرکے ہم جیسے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔خیر سے ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے سیاستدانوں کو بستر مرگ پر بھی حکومت اور اقتدار کے لالچ میں گرفتار دیکھا گیا ہے ۔وہ " عوام کے وسیع تر مفاد "میں ہسپتال کے آئی سی یو سے بھی سیاسی مفاہمت کے نام پر سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے اے کٹیگری کے سیاستدان اس وقت ستر سال یا اس سے اوپر کے ہیں جن کی ساری سیاست اقتدار کو طول دینے یا کسی نہ کسی طرح اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے یا اقتدار میں واپس آنے کے حربوں کے گرد گھومتی ہے ۔جبکہ ہنستے مسکراتے اقتدار کے کھیل سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرنے والی جیسنڈا آرڈن کا شمار دنیا کے کم عمر حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ ان کی عمر ابھی صرف 41 برس ہے۔ جیسنڈا آرڈن نے پارٹی کے ایک اہم اجلاس میں اعلان کیا کہ وہ سات فروری کو اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ ان کے عہدے کی ذمہ داریاں اتنی بھاری ہیں کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کے پاس اتنی طاقت نہیں رہی کہ وہ دیانت داری سے یہ بھاری ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔جبکہ اس کے برعکس ہمارے لیڈران کے ہجوم کا ہر ایک نگینہ یقین رکھتا ہے کہ صرف وہی اس ملک کو بحران سے نکال سکتا ہے۔ ایک صحافی نے جب جیسنڈا آرڈن سے مستعفی ہونے کی کوئی ایک ٹھوس وجہ پوچھی تو اکتالیس سالہ جیسنڈا آرڈرن نے اپنی سگنیچر سمائل کے ساتھ ایک لمبا گہرا سانس لیا اور کہا کہ بطور ماں وہ اپنی بیٹی کے سکول کا پہلا دن مس نہیں کرنا چاہتیں۔کیسی سادہ اور بنیادی بات کہہ دی۔ بطور وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والوں کی طرف سے اگرچہ انہیں سنگین ڈیتھ تھریٹس بھی تھے لیکن انہوں نے اس خوف کو مستعفی ہونے کی وجہ قرار نہیں دیا۔ اگرچہ یہ بھی ایک وجہ قرار دی جا رہی ہے ۔ جیسنڈا آرڈن صرف پاکستانی سیاستدانوں کے موازنے ہی میں قد آور دکھائی نہیں دیتی بلکہ ان کا موازنہ دنیا کے باقی حکمرانوں سے بھی کیا جائے تو وہ اپنی بے ساختگی اور دل کی مہربانی کے ساتھ تمام حکمرانوں میں منفرد اور ممتاز نظر آتی ہیں۔جیسنڈا آرڈن دنیا کی پہلی وزیراعظم تھیں جنہوں نے اپنی شیر خوار بچی کو لے کر یو این او کے اجلاس میں شرکت کی اور دنیا کو بتایا کہ ایک ماں میں اتنی صلاحیت ہو سکتی ہے بطور حکمران کے اپنے فرائض پوری توجہ تندہی سے انجام دے اور ساتھ ہی اپنے ماں ہونے کے فرض کو نہ بھولے۔ پاکستانی جیسنڈا آرڈن کے نام سے بھی واقف نہیں تھے تاوقتیکہ کرائسٹ چرچ کا سانحہ ہوا۔نیوزی لینڈ کے ایک گورے نے مسلمان کمیونٹی کے پچاس افراد کو شہید کردیا۔ اس سانحے پر جیسنڈا آرڈرن نے بطور وزیراعظم جس ہمدردی کا مظاہرہ کیا ،جیسے مسلمان خواتین کو جا کے گلے لگایا یا اس نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔وہ اپنا سر ڈھک کے مسلمان کمیونٹی کے ساتھ غمگساری کے لیے پہنچیں ، ان کا چہرہ خود شدت غم سے پگھل رہا تھا۔ جیسنڈا دنیا کو اپنی منفرد بے ساختگی ، مہربان دل کی وجہ سے ہمیشہ یاد رہیں گی۔کوویڈ بحران میں حکمر ان مختلف انداز میں کرونا سے نبرد آزما تھے۔ یہاں بھی ایک ماں کا مہربان دل رکھنے والی جیسنڈا نے اپنے منفرد اور بے ساختہ طرز عمل سے دنیا کے دل جیتے۔اس وقت جب کرونا بری طرح پھیل رہا تھا اور ماسک پہلا حفاظتی مرحلہ تھا اس کے استعمال کی اہمیت اور افادیت بتانے کے لیے انہوں نے اپنے آفس میں بیٹھ کر تیس سیکنڈ کے اندر ایک رومال سے ماسک سی کر دکھایا۔ یہ ویڈیوز دنیا بھر میں وائرل ہوئی کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اپنے آفس میں بیٹھ کر سرخ رنگ کے ایک رومال کو سیتی ہیں اور اس کے ساتھ ربڑ لگا کے اس ماسک پہن کر دکھاتی ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے بنانا اتنا ہی سادہ ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جیسنڈا آرڈن کا یہ انداز حکمرانی دنیا کے لیے اجنبی تھا ۔جہاں ایک حکمران کے اپنے عوام کے ساتھ احساس سے بھرے ہوئے اس برتاؤ نے دنیا بھر میں لوگوں کے دل جیت لیے وہیں اس پر سوالات بھی اٹھائے گئے۔اور دنیا بھر کے مقتدر حلقوں میں کہا گیا کی نرم دلی حکمران کے vulnerable ہونے کی علامت ہے ۔ بی بی سی کے ایک انٹرویو نگار نے جب یہی نکتہ جیسنڈا آرڈن کے سامنے رکھا تو اس نے نہایت خوبصورت جواب دیا: ایک متحمل اور ہمدرد لیڈر بننے کے لئے ہمت اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے کہا :ھم مہربان اور ہمدرد ہونے کا سبق اپنے بچوں کو ہمیشہ پڑھاتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری سیاست اور اور طرز حکمرانی میں یہ سب کچھ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔. اس نے کہا میرے نزدیک اپنے لوگوں کے ساتھ دکھ میں کھڑا ہونا اور ان کے دکھ کو محسوس کرنا ہی اصل لیڈر شپ ہے۔لیڈر شپ کے بارے میں میرا یہ نظریہ ہے۔ گارڈین اخبار میں ایک آرٹیکل چھپا جس میں کہا گیا کہ جیسنڈا آرڈن لیڈرشپ اور طرز حکمرانی کے پرانے تصور توڑ کو نئے سرے سے بنارہی ھیں جو دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے سے جڑا ہے ۔ دنیا ایسے کو ایسے ہی رہنماؤں کی ضرورت ہے ۔ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی عوام سے لاتعلقی بے حسی کے باب میں کئی داستانیں لکھی جا سکتی ہے۔جیسنڈا آرڈن کے ساتھ اپنے سیاستدانوں کا موازنہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے سورج کے سامنے کوئی بجھی ہوئی موم بتی رکھ دیں۔ یا پھر دیانت دارانہ کردار ،پروفیشنل اینٹگریٹی اور مہربانی میں لپٹی ہوئی بے ساختگی کا موازنہ ڈرامہ بازی، مفاد پرستی، خود غرضی ،کرپشن اور بد دیانتی سے کیا جائے۔جیسنڈا آرڈن ایسی کیوں ہیں اور ہمارے سیاستدان ایسے ویسے کیوں ہیں یہ تھیسز کا موضوع ہے اور کالم میں نہیں سما سکتا۔ یہ کالم لیڈر شپ کے منفرد پیرا ڈائم کو عملی صورت میں دکھانے والی جیسنڈا آرڈن کی محبت میں لکھا گیا ۔جہاں ان کے ملک کے لوگ انہیں بھول نہیں پائیں گے وہیں ان کی مہربانی میں ڈھلی بیساختگی اور اقتدار سے الگ ہونے کی بے مثال جرات دنیا کے دل پر نقش رہے گی۔ The World will miss you jascinda Arden.