جتنا ہاتھ پائوں مارتے ہیں،دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ ملک کے تمام تقدس مآب اداروں کے لئے مشکلات پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔ عدلیہ اور فوج دو ایسے ادارے تھے جن پر قوم اعتبار کرتی تھی اور آج بھی ایک حد تک ان کا وقار ملحوظ رکھا جاتا ہے، اس وقت سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی تقرری نے ایک بار پھر سیاسی ہیجان پیدا کر دیا ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ کو حکومت نے اس انکوائری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا ہے، جو براڈ شیٹ نامی سکینڈل کے بارے میں انکوائری کرے گا۔انہیں یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے باقی ارکان کا تعین بھی کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی وزراء نے ایسی زبان استعمال کرنا شروع کی کہ گویا وہ کہہ رہے ہیں اب بتائو کدھر جائو گے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے اس تقرری کو یکسر مسترد کر دیا۔ ایک تو اس لئے کہ جسٹس عظمت سعید شیخ اس پانچ رکنی بنچ کا حصہ تھے، جنہوں نے پانامہ لیکس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا ،جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اپنے ریمارکس میں سسلین مافیا کا لفظ استعمال کیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تو اپنی طرف سے صرف ایک ادبی حوالہ دیا تھا۔ پھر لندن کی عدالت میں مخالف پارٹی کے جس نقصان کا تخمینہ لگایا گیا، وہ اس جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر تھا، جو انہی کے حکم سے تشکیل پائی تھی۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ وہاں عدالت نے یہ تو تسلیم کیا کہ ان آٹھ الزامات میں سے کوئی ایک بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ بہرحال فیصلہ اسی مبینہ تخمینے کی بنیاد پر کیا گیا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جسٹس صاحب اس وقت نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے، جب جنرل مشرف کے زمانے میں نیب نے یہ معاہدہ براڈ شیٹ کے ساتھ کیا تھا اور چوتھے یہ کہ وہ شوکت خانم میموریل ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز میں شامل ہیں۔ اتنے سارے اعتراضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے ان کی تقرری کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ وہ مزے سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے کہ یہ بلا گلے آن پڑی۔ میرا خیال تھا اور اب بھی ہے کہ جسٹس صاحب اس کارخیر سے دست کش ہو جائیں گے۔ایسا ہوتا رہتا ہے۔ سب سے بڑی مثال تو حال ہی کی ہے جب حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے گھر کے لان میں ٹہلتے ہوئے قاضی صاحب سے اس مسئلہ پر بات کی تو انہوں نے اس کا نوٹس لیا اور اسے جسٹس کھوسہ کی جانبداری قرار دیا۔جسٹس کھوسہ کیس میں اور بھی مثالیں ہیں۔ سو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ کسی جج کے معاملے پر اعتراض کیا جائے۔ سپریم کورٹ کا ایک حاضر سروس جج اس وقت کے چیف جسٹس پر اعتراض کر سکتا ہے تو باقی کیا رہا اور جسٹس عظمت سعید شیخ تو ایک ریٹائرڈ جج ہیں۔ حاضر سروس اور ریٹائرڈ جج کا فرق دیکھنا ہو تو جسٹس افتخار چودھری کو دیکھ لیجیے۔ تاریخ بڑی ظالم ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ تاریخ کے فیصلے عدلیہ کے فیصلوں کے پابند نہیں ہوتے۔ اس ملک میں کتنے مقدمے ہیں جن میں تاریخ نے اپنا فیصلہ عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف دیا۔ آج تک ملک میں جمہوریت کی بربادی کی ابتدا اس عدالتی فیصلے کو قرار دیا جاتا ہے جو جسٹس منیر نے وفاقی جج کے طور پر دیا تھا۔جسٹس منیر آج تک ایک منفی علامت کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ براڈ شیٹ ایک دلدل ہے جس سے حکومت کا واسطہ اچانک ہی جڑ گیا ہے۔ مگر وہ اسے بھی نعمت سمجھ رہی ہے اور اسے دشمنوں کو غرقاب کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے حالانکہ خود وہ اور ریاست کے بہت سے ادارے اس میں دھنسے جا رہے ہیں۔ اس میں یہ ساری کوشش دلدل سے نکلنے کی نہیں ہاتھ پائوں مارنے کی ہے۔ یہاں تک کہ آیا کسی کو بیوقوف آدمی کہا گیا جو اس میں ایک منفی کردار کے طور پر ابھرا۔ یہ بھی آیا کہ کوئی کمشن مانگنے آ گیا تھا۔ اس میں کسی ایسے شخص کا نام بھی ہے جو بقول اس کے میاں نواز شریف کی طرف سے آیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا کوئی اتا پتا معلوم نہیں۔ کیا ملا ملک کو۔ ریاست پاکستان کا کیا حال ہوا۔ اس کے گندے چھینٹے ہمارے حساس اداروں تک بھی پہنچے۔ دیکھیے یہ بہت اہم بات ہے، جنرل عاصم سلیم باجوہ کے معاملے کے بعد یہ دوسرا مسئلہ ہے جس میں فوج کو یوں ملوث کیا جا رہا ہے۔ اس کو چھوڑیے یہ تو بڑی بات ہے۔اپنے ملک کے اندر دیکھ لیجیے۔ یہاں ہمیشہ فوج کو غیر جانبدار سمجھا جاتا رہا ہے۔ جہاں بھی ضرورت ہوتی تھی، فوج کی طرف دیکھا جاتا تھا۔ فوج کی نگرانی میں انتخاب کرانا گویا انتخابات کے محفوظ اور شفاف ہونے کی علامت گنا جاتا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ صاف کہا جا رہا ہے کہ انتخابات شفاف کرانا ہیں ،تو فوج کو انتخابات سے دور رکھو۔ گزشتہ انتخابات فوج ہی کی نگرانی میں ہوئے تھے۔ قوم فوج سے ایسی محبت کرتی ہے کہ 70ء کی مشرقی پاکستان میں شکست کو بھی بھول گئی تھی۔ اس کا سارا الزام سیاستدانوں پر لگا دیتی تھی۔ایسے میں یہ بیانیہ ترتیب پاتا کہ فوج کو انتخابات سے دور رکھو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اداروں کی بے توقیری کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے حتیٰ کہ تیسرے ادارے کی ساکھ بھی بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ یہ ادارہ ہماری پارلیمنٹ ہے۔ آخر رہ کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے جو مخلص ہیں وہ زیادہ سے زیادہ اپنے اداروں کی نیک نامی یا برتری کے لئے کام کرتے ہیں‘ انہیں بھی ملک کی بھلائی سے کوئی غرض نہیں۔ ادارے اہم سہی مگر ملک سے اہم تر نہیں۔ سیاستدان بھی اس وقت اپنی اور اپنی پارٹیوں کی سرخروئی میں لگے ہوئے ہیں اور ہم دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں: راتیں ترائیوں کی تہوں میں لڑھک گئیں دن دلدلوں میں دھنس گئے میں ڈھونڈتا پھرا ملک اداروں سے اہم تر ہے جس طرح ملک صوبوں سے اہم تر ہیں۔ جس طرح بعض نادان یا کایاں لوگ یہ بتا کر کہ صوبوں کے مل جانے سے ملک بنتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ صوبے کی بات کرتے ہیں اس طرح ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے اپنے ادارے کی اس طرح ڈفلی بجاتے ہیں گویا ادارہ ملک سے بالاتر ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک دلدل میں دھنستا جاتا ہے۔ اس وقت ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ کس طرح اداروں کی برتری کی جنگ نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس میں ایسے تلخ حقائق آئیں گے کہ شاید ہم برداشت نہ کر سکیں۔ایسا ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے اور مستقبل میں تو ضرور اس بات کا تجزیہ ہو گا کہ اداروں کے تقدس کو سربلند کرنے کے شوق میں ہم نے کس طرح ملک کی بے توقیری کی ہے۔ میں بار بار لکھ رہاہوں کہ ملک مشکل میں ہے۔ یہ کوئی مایوسی پھیلانے کے لئے نہیں کرتا‘ بلکہ آگاہ کرنے کے لئے کر رہا ہوں کہ خدا کے لئے سدھر جائو‘سنبھل جائو۔ تاریخ بڑی ظالم ہے وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔ تاریخ بڑی ظالم ہے اور وہ ہمیں بار بار بتا رہی ہے کہ ہم دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔زیادہ ذہین نہ بنو‘ براڈ شیٹ سے بچو‘ یہ بہت خطرناک سمت لے جا سکتی ہے اور لے جا رہی ہے۔